تحریر؛قاسم علی….
ضلع اوکاڑہ کو ملکی سیاست میں ہمیشہ ہی بہت اہمیت حاصل رہی ہے کیوں کہ ماضی میں یہاں سے منتخب ہونیوالے کئی سیاستدان ملک کے اعلیٰ ترین عہدوں پر براجمان رہے ہیں ۔اس ضلع میں قومی اسمبلی کی پانچ اور صوبائی اسمبلی کی نو نشستیں ہیں جبکہ یہاں پر ایک لاکھ سترہزار ووٹ ہیں۔ اگرچہ ان میں سے ہر سیٹ کی اپنی اہمیت ہے مگر حلقہ پی پی 187 کو اس سلسلے میں نمایاں مقام حاصل ہے ۔
یادرہے اس حلقہ پر شروع سے ہی ایک مخصوص خاندان جیتتا آیا ہے جس کو سوائے ایک الیکشن کے کبھی بھی شکست کا منہ نہیں دیکھنا پڑا ۔اور اب بھی اسی فیملی کے فرزند ملک علی عباس کھوکھر ممبر صوبائی اسمبلی ہیں۔
حلقہ پی پی 187 کی سیاست میں برادریوں اور دھڑوں کی سیاست کا بڑا عمل دخل رہاہے جس امیدوار کو سب سے زیادہ برادریوں کی حمائت مل جاتی ہے اقتدار کا ہمہ ہمیشہ اسی کے سر بیٹھتا رہاہے جبکہ حلقہ میں موجود بڑی برادیوں کا جائزہ لیاجائے جو الیکشن نتائج پر اثرانداز ہوسکتی ہیں تو ان میں ارائیں راجپوت،نوناری،بلوچ،مہار،بودلہ،کھوکھربڑی برادریاں ہیں اور ان میں سے ارائیں برادری بتیس ہزارووٹوں کیساتھ سب سے زیادہ اکثریت کی حامل ہے۔
2013ء میں یہاں سے پاکستان مسلم لیگ ن،پیپلزپارٹی،پاکستان تحریک انصاف،تحریک تحفظ پاکستان اورپاکستان مسلم لیگ ق کی جماعتوں نے نمایاں ووٹ حاصل کئے مجموعی طور پر اس الیکشن میں صوبائی اسمبلی کی سیٹ پر اس حلقہ سے سترہ امیدواروں نے حصہ لیا تاہم ملک علی عباس کھوکھر 42073ووٹ لے کر ایم پی اے بننے کے حقدار ٹھہرے جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار چوہدری طارق ارشاد خان18893ووٹ لے کر دوسرے جبکہ سیدعباس رضا رضوی پیپلز پارٹی کے ٹکٹ سے 9364ووٹ لے کر تیسرے نمبر پر رہے۔
اگر حلقہ کی موجودہ سیاسی صورتحال کو دیکھا جائے تو اب کی باربرادریوں کے اتحاد و اتفاق کیساتھ پارٹیوں میں موجود اختلاف و دھڑے بندیوں اور ٹکٹ کا الیکشن پر زیادہ اثر ہوگا۔
اس حلقہ میں الیکشن کیلئے چارامیدوار سامنے آچکے ہیں ۔ملک علی عباس کھوکھر،ڈاکٹر امجد وحید ڈولہ،میاں بلال عمر بودلہ اور رانا طارق ارشادخاں۔

**ملک علی عباس کھوکھر کی پوزیشن دیکھیں تو وہ ماضی میں ہمیشہ مسلم لیگ ن کی ٹکٹ پرکامیاب ہوتے رہے ہیں مگر اب کی بار ایم این اے راؤمحمد اجمل خان کیساتھ اختلافات کے بعد یہ ممکن ہے کہ وہ ن لیگ کی بجائے اپنا زوربازو آزماتے ہوئے آزاد حیثیت میں یا پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے لڑیں ایسے میں ان کی جیت کے چانس کم ہوسکتے ہیں

**دوسرے امیدوار رانا طارق ارشاد خان ہیں جنہوں نے گزشتہ الیکشن میں اٹھارہ ہزار ووٹ لئے تھے اور وہ پی ٹی آئی ضلع اوکاڑہ کے صدر بھی ہیں مگرپی ٹی آئی ورکرز اور زمینی حقائق کے مطابق رانا طارق ارشاد خان غیرمتحرک ہونے اور پارٹی میں صرف اپنی برادری کو نوازنے کی پالیسی اپنانے کے باعث نہ صرف اپناسابقہ ووٹ بنک بھی پہلے سے کم کرچکے ہیں بلکہ پی ٹی آئی ٹکٹ ملنے کی صورت میں بھی نظریاتی اور پرانے ورکرز کی حمائت نہ ہونے کی وجہ سے ان کیلئے یہ میدان مارنا آسان نظر نہیں آتا۔

**
اس مقابلے کے تیسرے امیدوارمیاں بلال عمر بو دلہ ہیں جو پہلے کونسلراور پھر دیپالپور بارایسوسی ایشن کے الیکشن میں بھرپور کامیابی کے بعد عام انتخابات کو بھی انہی الیکشن کے تناظر میں دیکھتے ہوئے جیت کیلئے بہت پُرامید ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایک اچھے سپیکر ہیں اور اپنی تقاریر سے سٹی کے نوجوانوں میں کچھ مقبولیت بھی رکھتے ہیں مگر حلقہ میں مجموعی طور پر وہ اتنی حمائت اوراستعداد نہیں رکھتے کہ کوئی قابل ذکر ووٹ حاصل کرپائیں۔

**
پروفیسر ڈاکٹر امجد وحید ڈولہ اس میدان کے چوتھے کھلاڑی ہیں ڈاکٹرامجدوحید ڈولہ اگرچہ صرف دوسال سے سیاست کے میدان خارزار میں ہیں مگر ملک کی سب سے بڑی ڈگری پی ایچ ڈی کے حامل اور سیاست کیلئے یو ایم ٹی جیسی پرکشش جاب چھوڑ کر آنیوالے ڈاکٹر امجدنے ان دوسالوں میں مسلسل اوربراہ راست عوامی رابطہ مہم کے ذریعے جو مقبولیت حاصل کی ہے اس نے بڑے بڑے مقامی سیاسی پنڈتوں کو یہ کہنے پر مجبور کردیا ہے کہ اس محنت ،حلقہ کی سب سے زیادی یعنی بتیس ہزار ووٹ رکھنے والی ارائیں برادری کی حمائت اور اس کیساتھ اگر ڈاکٹرامجد وحید ڈولہ کو پی ٹی آئی ٹکٹ بھی مل جاتا ہے تویہ مقابلہ ڈاکٹرامجد وحیداورملک علی عباس کے مابین ون آن ون ہوجائیگا اور بہت ممکن ہے کہ اس نوجوان کا پہلا الیکشن موسٹ فیورٹ سمجھے جانیوالے ملک علی عباس کا آخری الیکشن ثابت ہو۔جب کہ اگر پی ٹی آئی یہ ٹکٹ رانا طارق ارشاد خان کو دے دیتی ہے تو پی ٹی آئی ووٹ تقسیم ہوجائیگا جس کا فائدہ ملک علی عباس کو جائیگا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اگر اس صورت میں ملک علی عباس ن لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑتے ہیں تو وہ اپنے مدمقابل ڈاکٹرامجد وحید،میاں بلال عمر اور رانا طارق ارشاد خاں سب پر بھاری پڑسکتے ہیں۔یعنی اس الیکشن میں بڑا کردار ڈاکٹرامجد کو پی ٹی آئی ٹکٹ ملنے یا نہ ملنے اور ملک علی عباس کے ن لیگ پلیٹ فارم سے الیکشن لڑنے یا نہ لڑنے پرہے۔