دیپالپور، معاشرے میں بہتری کیلئے ہر ایک کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا،امتحان میں زیادہ نمبروں کی بجائے اعلیٰ اخلاق کامیابی کا میعار ہیں،دیپالپور کی ترقی چاہتے ہیں تویہاں کے باکردار لوگوں کو عزت دینا شروع کردیں،قاسم علی شاہ تفصیلات کے مطابق گزشتہ روز مشہور ماہر تعلیم میاں محمد اسلم ڈولہ کی دعوت پر ان کے تعلیمی ادارے اے آر سائنس میں منعقدہ تربیتی سیشن خطاب کرتے ہوئے معروف ٹرینر اور موٹیویشنل سپیکر سید قاسم علی شاہ نے کہا کہ ہمارا بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم خود کچھ نہیں کرتے مگر دوسروں پر تنقید میں سب سے آگے ہوتے ہیں اگر ہمیں ترقی کرنی ہے اور حقیقی تبدیلی لانی ہے تو سب سے پہلے خود ہمیں اپنے اندر تبدیلی لانا ہوگی معاشرے میں کوئی بہتری اس وقت تک بالکل نہیں آئے گی جب تک میں اور آپ مثبت سوچنا اور مثبت کرنا شروع نہیں کریں گے انہوں نے کہا کہ تعلیمی اداروں میں کامیابی کا میعار زیادہ نمبروں کو سمجھا جاتا ہے اور اسی کی تشہیر کی جاتی ہے مگر اصل میں کامیابی یہ نہیں ہے اگر ننانوے فیصد نمبر لے کر کوئی افسر بن جاتا ہے مگر اس کا عوام کے ساتھ رویہ ہتک آمیز ہوتا ہے تو وہ کامیاب نہیں بلکہ ناکام ترین انسان ہے۔اس لئے تعلیمی اداروں کو چاہئے کہ وہ نمبر گیم سے نکل کر بچوں کی اخلاقی تربیت پر بھی توجہ دیں بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ بچوں کو پڑھایا ہی اخلاق جانا چاہئے اور اس میں کچھ حصہ نصاب کا بھی شامل کرلیا جائے تو کوئی حرج نہیں ان کا کہنا تھا کہ میں اٹھائیس ممالک کا دورہ کرچکا ہوں مگر میں نے دنیا میں پاکستان جیسا خوبصورت اور باصلاحیت ملک نہیں دیکھا بس مسئلہ یہ ہے کہ ہم اچھائی کی قدر نہیں کرتے اگر ہم آج سے دیپالپور کے کردار والے تعلیم یافتہ لوگوں کی عزت کرنا شروع کردیں تو یقین کریں اس سے بچوں کے رول ماڈل بدل جائیں گے اور تبدیلی آجائے گی اور آئندہ چند برسوں میں آپ کے پاس ایک نیا اور ترقی یافتہ دیپالپور ہوگا مگر ہمارا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہم جرائم پیشہ اور کرپٹ لوگوں کی تو عزت کرتے ہیں اور ان کی دعوتیں کرتے ہیں مگر شریف و باکردارآدمی کو کوئی پوچھتا ہی نہیں۔انہوں نے کہا کہ ہمیں سیرت النبیؐ کا ماڈل اپناتے ہوئے اپنی سوچ کو مثبت کرنا ہوگا مضامین کے رٹوں سے تبدیلی نہیں آسکتی ۔زیادہ کردارسازی اور تھوڑا نصاب ہونا چاہیے رٹہ سسٹم کاخاتمہ اور زیادہ سے زیادہ بچوں کی کردار سازی کرنا ہوگی جب قبر ہر ایک کی اپنی اپنی ہو گی حساب اپنا پنا ہونا ہے تو کام بھی اپنا اپنا کرنا ہوگا اور ہمیں سیرت النبی ؐ اور اخلاق جیسے مضامین نصاب میں شامل کرنا ہوں گے ، آجکل سکولو ں میں نمبروں کی دوڑ لگی ہوئی ہے جبکہ ہمیں اپنے بچوں کونمبروں کی دوڑ میں لگانے کی بجائے بزرگوں ،بڑوں کا ادب سکھانا ہو گا،ہمارے قول و فعل میں تضاد ہے ہمیں اپنے آپ کو بدلنا ہو گا پاکستان جیسا ملک پوری دنیا میں نہیں ہے مگر ٹیکنالوجی کو بہتر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ میڈیا ٹیچر کی مانند ہے اسے اپنی ذمہ داری ٹھیک طریقہ سے نبھانا ہوگی جرنلسٹس بھی صرف نیگیٹو خبر نہ لکھیں پازیٹو خبر بھی لکھیں۔ روڈ ایکسیڈنٹ میں سعودیہ کا پہلا نمبر ہے مگر وہاں خبر نہیں بنتی دنیا میں 422پروفیشن ہیں مگر افسوس کی بات ہے کہ پاکستان میں جس کو نوکری نہیں ملتی وہ ٹیچر بن جا تا ہے کئی اساتذہ ایسے ہیں جنہیں پڑھانا نہیں آتا ہم عبادتوں میں اوپر اور کردار میں نیچے جا رہے ہیں الحاج کہلواتے تو ہیں مگر عادتیں حاجیوں والی نہیں ہوتیں عبادت بھی دکھاوے کیلئے کرتے ہیں انہوں نے مزید کہا کہ ملک میں اس وقت طلاق کی وجہ زیادہ تر گھر سے بھاگنے والی بچیوں کی وجہ سے ہے بچیوں کی رائے لیے بغیر رشتے طے کر دیے جاتے ہیں ہم جہیز تو دیتے ہیں مگر جائیداد میں حصہ دینا مناسب نہیں سمجھتے ہمیں جہیز جیسی لعنت کو ختم کرنااور گھر کے سربراہ کو اچھا منصف بننا ہوگا زمانہ زبوں حالی کی طرف تب جاتا ہے جب اسے انصاف نہیں ملتا ۔انگریزی آنا ذہانت نہیں ہے ہمیں قومی سطح پر اردو کو لاگو کرنا ہوگا ۔ ہمارے سارے مضامین اردو میں ہونے چاہیں۔80فیصد غریبوں کے بچے اچھی پوسٹوں پر ہیں بندہ جب اپنے آپ کو نہیں بدلے گا تو خدا بھی ان کی حالت نہیں بدلے گا۔ اس موقع پرسردار شہریار موکل،پروفیسر ڈاکٹر امجد وحید ڈولہ،میاں فخرحیات بودلہ،حافظ حسان آزاد،معروف کمپیئرامتیاز احمد کوکب وکلاء برادری،صحافتی حلقوں ،سماجی و سیاسی شخصیات اور اساتذہ کرام سمیت معززین علاقہ کی بڑی تعداد موجود تھی
