potato farmers on protest from 8 january 793

آلو کے کاشت کاروں کو سڑکوں پر کیوں نکلنا پڑا ؟

تحریر:قاسم علی…
پاکستان کو قدرت نے انتہائی زرخیز سرزمین سے نوازرکھا ہے جہاں انواع و اقسام کی فصلیں کاشت کی جاتی ہیں اور ان فصلوں کی دنیا میں بہت مانگ بھی ہے مگر بہتر پالیسی سازی نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کا کاشتکار بہت زیادہ محنت کرنے کے باوجود انتہائی پریشانی سے دوچار ہے۔پاکستان جن فصلوں میں خودکفیل ہے بلکہ ان کو بیرون ملک ایکسپورٹ کرکے ملکی زرمبادلہ میں بے پناہ اضافہ کیاجاسکتا ہے ان میں ایک آلو بھی ہے۔
آلو غذائیت ولذت سے بھرپورایک ایسی سبزی ہے جو دنیا بھر میں بڑے شوق سے کھائی جاتی ہے اور خوش قسمتی سے پاکستان دنیا میں سب سے زیادہ آلو پیدا کرنے والے چندممالک میں شمار ہوتا ہے۔خاص طور پراوکاڑہ کو آلو کا گھر کہاجاتا ہے مگر اوکاڑہ کی تحصیل دیپالپور میں آلو کے کاشتکار انتہائی تنگ آمد بجنگ آمد ہیں اور حکومتی ناقص پالیسیوں کے خلاف احتجاج کی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔
سینئرنائب صدر پاکستان کسان اتحادمیاں غلام مصطفی وٹو نے کا کہنا ہے کہ اس وقت آلو کافی ایکڑ خرچہ ہی تقریباََ اسی ہزار روپے تک ہوجاتا ہے جبکہ اس ایکڑ کی قیمت فروخت بمشکل تیس پینتیس ہزار سے زیادہ نہیں ہے اس طرح ایک ایکڑ پر ہی کسان کو چالیس ہزار سے زائد نقصان کا سامنا کرنا پڑرہاہے۔ان کا کہنا تھا کہ اگریہی حال رہاتو کسان فاقوں تو پہلے ہی مررہاہے اب خودکشیوں پر اترآئے گا۔
انہوں نے کہا کہ طورخم اور چمن کے بارڈرز پر لگایا جانیوالے بھاری ٹیکسز کے خاتمے کرے اور دیگر ممالک کیساتھ آلو کی فروخت کے معاہدے کرکے بھی اس مسئلے پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آلو کے سٹورمالکان بھی ہمارے ساتھ مسلسل زیادتی کررہے ہیں اور تین سو روپے فی بوری آلو کرایہ کے حکومتی نوٹیفکیشن کے باوجود ہم سے چارسو سے بھی زیادہ ریٹ وصول کیاجارہاہے۔ہم اس کے خلاف بھی احتجاج کریں گے۔
okara,potato farmers on protest from 8 january
ملک قاسم علی جانی نیو انٹرنیشنل سبزی و فروٹ منڈی دیپالپور کے صدر ہیں اور حال ہی میں اس منڈی نے آلو کی خریداری کا عمل شروع کیا ہے ان کاکہنا ہے کہ آلو کے کاشتکار کے مسائل کی جڑ یہ ہے کہ حکومت دیگر ممالک کیساتھ کئے گئے اپنے معاہدوں پر عملدرآمد نہیں کررہی جسکی وجہ سے یہ بڑا بحران پیدا ہوا ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ حکومت کے روس کوآلو فروخت کرنے کے معاہدے موجود ہیں مگر گزشتہ پانچ سال سے ان پر عمل ہی نہیں ہوا۔اگر موجودہ حکومت روس کیساتھ آلو کی تجارت شروع کردے تو یہ گھمبیر مسئلہ فوری ختم ہوسکتا ہے اور کسان کی خوشحالی کا ایک نیا اور سنہری دور شروع ہوجائے گا۔
انہوں نے کہا کہ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان کا آلو اب بھی روس جارہاہے مگر وہ اس طرح کہ ہم آلو افغانستان کو فروخت کرتے ہیں اور پھر افغانستان سے تاجر روس کو فروخت کرتے ہیں اس طریقے سے آلو روس جانے تک بیشمار اخراجات آتے ہیں اس کا بوجھ ہمارے کسان پر ہی پڑتا ہے اگر حکومت روس کیساتھ پہلے سے ہی کئے گئے اپنے معاہدے پر عمل کرتے ہوئے ان کو آلو کی ڈائریکٹ فروخت شروع کردے تو ریٹ میں کئی گنا اضافہ ہوجائے گا ۔
malik qasim ali jani sadar new internationala sabzi o fruit mand depalpur views on potato
ملک خالدمحمود کھوکھر پاکستان کسان اتحاد کے مرکزی صدر ہیں دیپالپور میں آلو کے کاشتکاروں کی ایک بڑی تعداد سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے کسان دشمنی مسلسل جاری ہے جس کی وجہ سے ہم نے تنگ آکر ایک بار پھر احتجاج کا رستہ اپنانے کا فیصلہ کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت چاہے تو آلو کے کاشتکاروں کیساتھ نارواسلوک ترک کردے تو اس سے نہ صرف کسان خوشحال ہوگا بلکہ حکومتی خزانے میں بھی گراں قدر اضافہ ہوسکتا ہے جبکہ اس جانب سے مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا جارہاہے۔
ملک خالدمحمودکھوکھر نے کسانوں کی مشکلات بتاتے ہوئے کہا کہ حکومت نے فیکٹری مالکان کو خسارے سے بچانے کیلئے تو ایک سو اسی ارب کی سبسڈی دے دی ہے مگر ملک کے کروڑوں کسان جنہیں حکومت بظاہر تو دن رات ملک کیلئے ریڑھ کی ہڈی قراردیتی ہے مگر عملاََ ان کو بری طرح نظرانداز کررہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے موجودہ احتجاج کا بڑا مطالبہ یہ ہے کہ حکومت آلو کے کاشتکار کا معاشی قتل عام بند کرتے ہوئے آلو کی فصل کی فی ایکڑ کے اخراجات کا تعین کرے اور پھر اس خرچے کے لحاظ سے امدادی قیمت مقرر کردے تاکہ کم از کم کسان مسلسل خسارے سے تو بچ سکے۔
ملک خالد نے کہا کہ ہم اپنے اس مطالبے کیلئے آٹھ جنوری کو پورے صوبے میں ڈپٹی کمشنرز کے دفاتر کے سامنے آلو جلا کر احتجاج کریں گے اور اگر ہمارے مطالبات پورے نہ کئے گئے تو ہم پندرہ جنوی کو اسلام آباد بند کردیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں