اسسٹنٹ کمشنر دیپالپور پر “قاتلانہ حملہ” اور ہم صحافی

تحریر:قاسم علی

گستاخی معاف مگر میری رائے میں صحافی کو صرف رپورٹنگ کرنی چاہئے نہ کہ فریق بننا جبکہ افسوسناک بات یہ ہے کہ اسسٹنٹ کمشنر حملہ معاملے کو لے کر کئی دوست جہاں ایک طرف سوشل میڈیا پر اسسٹنٹ کمشنر کو معصوم ثابت کرنے میں ایڑھی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں تو دوسری جانب کئی لوگ ملزم کو مظلوم ثابت کرنے پر تلے ہیں۔

اگر آپ ایک صحافی ہیں تو آپ کو یہ دونوں صورتیں ہی زیب نہیں دیتیں۔ ہاں اگر آپ کی دونوں فریقین میں سے کسی کیساتھ رشتہ داری ہے تو پھر آپ شوق سے کسی ایک کی طرف داری کریں مگر پھر اس صورت میں آپ ایک صحافی نہیں ہوں گے ایک پارٹی تصور کئے جائیں گے۔اور آپ کی رپورٹ بطور صحافی معتبر نہیں ہوگی۔

میرے ایک صحافی دوست نے میری ایک پوسٹ میں سی سی ٹی وی فوٹیج کے مطالبے کو واویلہ قرار دیا ہے جبکہ ایک دوسری پوسٹ میں کمنٹ کرتے ہوئے کہا کہ حملے کی ایف آئی آر میں درج دفعات کا فیصلہ عدالت نے کرنا ہے کسی اور نے نہیں۔واہ میں صدقے جاواں اگر ایسا ہی ہے تو پھر یہ بات اس سارے معاملے پر ہی لاگو ہوتی ہے پاکستان میں روزانہ ہزاروں لاکھوں کیس پاکستانی عدالتوں میں زیرسماعت ہوتے ہیں یہ بھی کوئی انوکھا کیس نہیں ہے اس کا فیصلہ بھی عدالتوں کو کرنے دیں آپ کیوں اس معاملے میں ذاتی دلچسپی لیتے ہوئے ایک فریق کو ظالم اور دوسرے کو مظلوم قرار دے رہے ہیں۔

ہاں البتہ اس سارے معاملے میں ایک واقعہ غیرمعمولی اور اس پر کیا جانے والا مطالبہ جائز ہے جو سب صحافیوں کو اٹھانا چاہئے تاکہ حقیقت سامنے آئے لیکن اس مطالبے کو ادھر ادھر کی باتوں میں دبانے کی کوشش کی جارہی ہے اور وہ مطالبہ یہ ہے کہ اے سی صاحب پر حملے کا ثبوت کہاں ہے ؟؟؟اس ضمن میں ایک دلیل سامنے آئی ہے کہ سی سی ٹی وی کیمرے صرف عدالت میں ہوتے ہیں جبکہ حملہ اے سی صاحب کے ذاتی کمرے میں ہوا ہے چلیں اگر اس بات کو درست بھی مان لیا جائے تو بھی اے سی صاحب کا یہ کمرہ عدالت سے گزر کر ہی آتا ہے عدالت کا ہی سی سی ٹی وی کیمرہ یہ بتا دے گا کہ ایف آئی آر میں درج کردہ تین لوگ اندر داخل ہورہے ہیں اور پھر لیپ ٹاپ اور دیگر قیمتی دستاویزات اٹھا کر بھاگ رہے ہیں۔ لیکن اگر عدالت کی سی سی ٹی وی فوٹیج میں ایسا کچھ نظر نہیں آتا تو پھر صاف ظاہر ہوتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے اور ملزم آصف کا یہ سوال جائز ہے کہ میں نے اے سی صاحب پر قاتلانہ حملہ تو دور کی بات بدتمیزی تک نہیں کی یہ سب ڈرامہ کیوں کیا جارہا ہے ؟

آخر میں یہ گزارش ہے کہ صحافیوں کو انتظامیہ کیساتھ تعاون ضرور کرنا چاہئے مگر اس تعاون کا مطمع نظر بھی عوام کو بنیادی حقوق کی فراہمی ہونا چاہئے لیکن انتظامیہ کے ہر جائز و ناجائز اقدام کو ہی درست سمجھتے ہوئے پھر اس کی وکالت بھی کرنا صحافتی اقدار کے بالکل خلاف ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button