na 144depalpur haveli lakha okara 996

این اے 144 میں فتح کا تاج کس کے سر سجے گا ؟

تحریر:قاسم علی…
ٰٓٓٓتحصیل دیپالپور کا حلقہ این اے 144ضلع اوکاڑہ کی سیاست میں بہت اہمیت اختیار کرگیا ہے اور اس کی وجہ سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں منظور احمدخان وٹو کا اس الیکشن میں حصہ لینا ہے جو اس بار خلاف معمول اسی واحد سیٹ سے الیکشن لڑرہے ہیں ورنہ اس سے قبل وہ ایک ہی وقت میں متعدد حلقوں سے الیکشن لڑتے رہے ہیں لیکن اس بار ان کی عمر کی زیادتی سمجھیں یا کوئی اور سیاسی مصلحت بہرحال انہوں نے صرف این اے 144پر ہی اکتفا کیا ہے اور سیاسی ماہرین کہتے ہیں کہ اگر وہ اس واحدسیٹ پر بھی ہار گئے تو ممکن ہے یہ ان کی زندگی کا آخری الیکشن ثابت ہو۔
اس حلقہ سے این اے کی سیٹ پر مندرجہ ذیل امیدواران الیکشن لڑرہے ہیں۔
میاں منظور احمد خان وٹو (آزاد)
میاں معین احمد خان وٹو (پاکستان مسلم لیگ ن)
جمیل اشرف چوہان (تحریک لبیک یا رسول اللہ ﷺ)
محمدحسین سیال غفاری (آزاد)
میاں منظور احمد خان وٹو۔
میاں منظور احمدخان وٹو کا نام ملکی تاریخ میں بہت جانا پہچانا ہے اگرچہ میاں صاحب ماضی میں دیپالپور کے دیگر حلقوں اور ایک بار تاندلیانوالہ سے بھی الیکشن جیت چکے ہیں اور اس بار بھی وہ دیپالپور کے حلقہ این اے 143اور این اے 144سے الیکشن لڑنا چاہتے تھے تاہم پاکستان تحریک انصاف کیساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے بعد انہیں این اے 144تک محدود ہوناپڑا اورتحریک انصاف نے ان کے مقابلے میں امیدوار نہ لانے کا فیصلہ کرکے این اے 143میں اپنے امیدوار سیدگلزارسبطین کیلئے میاں منظور احمد خان وٹوکی حمائت حاصل کرلی اور مزید یہ کہ پاکستان تحریک انصاف نے میاں منظور وٹو کے بیٹے خرم جہانگیر وٹو اور روبینہ شاہین وٹو کو حلقہ پی پی 186اور پی پی 185کیلئے پارٹی ٹکٹ بھی جاری کردئیے۔
این اے 144سے پاکستان تحریک انصاف کاامیدوارکھڑا نہ کرنے پر پی ٹی آئی ورکرز اگرچہ کافی سیخ پا تھے اور ایک وقت میں یہ بھی سننے میں آتا رہاکہ پی ٹی آئی کے رہنما دیوان اخلاق احمد آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے کا فیصلہ کرلیں اور کئی ورکرز نے یہ بھی کہا کہ وہ میاں منظور وٹو کو آزاد حیثیت میں کبھی سپورٹ نہیں کریں گے مگر یہ سب قیاس آرائیاں اس وقت دم توڑ گئیں جب دیوان خلاق احمد سمیت پی ٹی آئی ورکرز کی تمام باڈیز نے میاں منظور احمد خان وٹو کی مکمل حمائت کا اعلان کردیا ۔
یادرہے کہ حویلی لکھا میں پاکستان تحریک انصاف منظم ترین سیاسی جماعت سمجھی جاتی ہے جس کے ہر یونین کونسل میں ونگز ہیں اگر پی ٹی آئی ورکر دل و جان سے میاں منظور وٹو کی سپورٹ کرتے ہیں تو ان کی کامیابی کے چانسز بہت بڑھ جائیں گے۔
2013ء کے انتخابات میں میاں منظور وٹو نے دیپالپور کے دونوں حلقوں سے الیکشن لڑا تھا اور بدقسمتی سے دونوں سیٹوں سے ہار گئے تھے۔اور اتفاق یہ کہ اب کی بار بھی ان کے مدمقابل وہی معین احمد وٹو ہیں جنہوں نے انہیں پانچ سال پہلے ہرایا تھا۔
اس کے علاوہ نئی حلقہ بندیوں کے نتیجے میں این اے 144میں شامل ہونے والی کوئے کی بہاول قانونگوئی کا فائدہ بھی منظور وٹو کو پہنچنے کا زیادہ چانس ہے ۔مقامی عوام اور سیاست پر گہری نظر رکھنے والے افراد کے مطابق دھڑے بندی اور جوڑ توڑ کی سیاست کے بادشاہ منظوروٹو کی حالیہ الیکشن میں حکمت عملی بہت اچھی ہے اب ان کا زیادہ تر فوکس ایک ہی حلقے پر ہوگا جہاں سے وہ باآسانی جیت جائیں گے۔میاں منظور احمد خان وٹو کا انتخابی نشان تالا ہے۔
میاں معین خان وٹو۔
میاں معین احمدخان وٹو پاکستان مسلم لیگ ن کے امیدوار ہیں۔2013ء کے انتخابات میں انہوں نے ایم این اے اور ایم پی اے کی دونوں سیٹوں پر فتح حاصل کی تھی تاہم بعد ازاں انہوں نے ایم پی اے کی سیٹ چھوڑدی تھی۔
میاں معین احمد وٹو اور ان کے فالورز پر امید ہیں کہ عوام پاکستان مسلم لیگ کی پانچ سالہ شاندار پرفارمنس کو دیکھتے ہوئے ان کو ووٹ دیں گے علاوہ ازیں انہوں نے مقامی سطح پر بہت کام کیا ہے اور عوام خالی نعروں اور بڑے نام کی بجائے کام کو دیکھ کر ووٹ دیں گے۔
میاں معین خان وٹو کے بارے میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ وہ ایک عوامی لیڈر ہیں جن کو کسی بھی مسئلے کیلئے ملنا کچھ دشوار نہیں ہوتا اور پارٹی سپورٹ بھی ان کیلئے ایک پلس پوائنٹ ہے کیوں کہ عوام آزاد کی بجائے پارٹی ٹکٹ کو زیادہ فوقیت دیتے ہیں۔
مسلم لیگ ن کے ورکرز اور رہنماؤں کا کہنا ہے کہ 13جولائی کو میاں نوازشریف کی آمد کے بعد پاکستان مسلم لیگ ن کے ووٹ بنک میں راتوں رات اتنا اضافہ ہوجائے گا کہ مخالفین کی نیندیں اڑ جائیں گی۔اور یقیناََ اس کا اثر این اے 144پر بھی پڑے گا جہاں پر میاں معین وٹو پہلے ہی اچھی پوزیشن پر ہیں تاہم 13جولائی کو نوازشریف اور مریم۔کی گرفتاری کے بعد مسلم لیگ ن کے امیدوار سمجھتے ہیں کہ ان کو ہمدردی کا بہت ووٹ ملے گا کیوں کہ نوازشریف کو انتقامی کاروائی کا نشانہ بنایا جارہا ہے اس کے حق میں پلٹ سکتی ہے اور اوکاڑہ کا برج میاں منظور وٹو اس بار بھی شکست سے دوچار ہوسکتا ہے۔تاہم ایسے لوگوں کی تعداد بھی کم نہیں جن کا یہ خیال ہے کہ نوازشریف ایک مجرم ثابت ہوچکے ہیں اور اب قوم بہت باشعور ہوچکی ہے اور ایک مجرم کیساتھ ہمدردی نہیں کرے گی۔
جمیل اشرف چوہان (تحریک لبیک یا رسول اللہ ﷺ)
جمیل اشرف چوہان سیاستدان ہونے کے علاوہ ایک سینئرایڈووکیٹ بھی ہیں ماضی میں بلدیاتی انتخابات میں حصہ لیتے رہے ہیں تاہم عام انتخابات میں پہلی بار سامنے آئے ہیں اورتحریک لبیک یارسول ﷺ کے ٹکٹ پر این اے 144سے میدان میں اترے ہیں ان کا کہنا ہے کہ تمام مسائل کا حل مصطفوی ﷺ نظام میں ہے تحریک لبیک یارسول اللہ ﷺ انشااللہ اقتدار میں آکر ظلم و ناانصافی اور رشوت کا خاتمہ کرکے دین اسلام کے نفاذ،عوام کے بنیادی حقوق کا تحفظ اورکرپشن کا خاتمہ کرکے میرٹ کو رائج کرے گی جس سے عوام کے مسائل ان کی دہلیز پر حل ہوں گے ۔انہوں نے کہا کہ اس حلقہ میں موجود مذہبی ووٹ تحریک لبیک یارسول اللہ ﷺ کو جائے گا اور انشااللہ ہم اپنے مخالف بڑے ناموں کو ٹف ٹائم دیں گے کیوں کہ انہیں عوام کی جانب سے زبردست پزیرائی مل رہی ہے۔
محمدحسین سیال غفاری (آزاد)
محمد حسین سیال ایک نوجوان اور پڑھے لکھے امیدوار ہیں اورپہلی مرتبہ عام انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں ۔آزاد حیثیت سے الیکشن لرنے والے محمدحسین سیال غفاری کا کہنا ہے کہ وہ ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور اس لحاظ سے غریب عوام کی مشکلات کو زیادہ بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں ۔جبکہ اس حلقہ میں حصہ لینے والے باقی تمام بڑے نام عوام کے مسائل سے نابلد ہیں یہی وجہ ہے کہ مجھے میدان میں آنا پڑا اور یہ ہر ایک کا جمہوری حق بھی ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ ان کی ساری کیمپین موٹرسائیکل پر چل رہی ہے اور لوگ خود ان کیلئے ووٹ مانگ رہے ہیں انشااللہ غریب اور پسے ہوئے طبقات انہیں ضرور منتخب کریں گے ۔محمدحسین سیال غفاری کی خصوصیت یہ بھی ہے کہ انہوں نے عوام کو ایک بہترین اور پرکشش منشور دیا ہے جس میں حویلی لکھا کو تحصیل بنانا،علاقے میں یونیورسٹیز اور طبی مراکز کا قیام،زراعت،ادب اوردیگر شعبہ ہائے زندگی کیلئے خدمات نمایاں ہیں ان کامنشورغریب عوام کی فلاح و بہبود سے شروع ہو کر غریب عوام پر ہی ختم ہوتا ہے اس لئے درمیانہ اور لوئر کلاس طبقہ ان کو بہت پسند کررہاہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں