اوکاڑہ،پاکستان میں بریسٹ کینسر(چھاتی کے سرطان )میں مبتلا خواتین کی شرح میں تیزی سے اضافہ باعثِ تشویش ہے، چالیس سال سے زائد عمر کی خواتین کو سال میں ایک دفعہ میمو گرافی ضرور کروانی چاہیے ، ان خیالات کا اظہار ڈسٹرکٹ گائناکالوجسٹ ڈاکٹر بابرہ شاہد ،سماجی ورکرمس صائمہ رشید ایڈووکیٹ ،پروفیسر عاصمہ شاہد ، مانیٹرنگ آفیسر آئی ایم این سی ایچ پروگرام اوکاڑہ محمد افضل کامیانہ نے گورنمنٹ پوسٹ گریجوایٹ کالج برائے خواتین میں محکمہ صحت کے زیر اہتمام بریسٹ کینسر کے حوالے سے منعقدہ سیمینار میں کیا انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ہرسال 44ہزار خواتین بریسٹ کینسر میں مبتلا ہوکر جان کی بازی ہار جاتی ہیں اور روزانہ 120خواتین بریسٹ کینسر کی بیماری کے سبب موت کا شکار ہو جاتی ہیں ان میں زیادہ تر شادی شدہ خواتین شامل ہیں جو بریسٹ کینسر میں مبتلا ہوتی ہیں انہوں نے مزیدکہا کہ بریسٹ کینسر کا علاج ممکن ہے اگر بروقت مکمل چیک اپ کروا کر علاج شروع کر دیا جائے۔ مانیٹرنگ آفیسر آئی ایم این سی ایچ پروگرام اوکاڑہ محمد افضل کامیانہ نے کہا کہ نو جوان نسل کو کینسرسمیت تمام بیماریوں کے بارے میں آگہی دینے کی ضرورت ہے کینسر آج دنیامیں بہت مہلک بیماری بن چکی ہے انہوں نے کہا کہ حالیہ رپورٹ کے مطابق دنیا کی خواتین کی کل آبادی میں سے 16فیصد خواتین کو چھاتی کا کینسر لاحق ہے اور بدقسمتی سے بریسٹ کینسر کی وجہ سے پوری دنیامیں ہر سال 5لاکھ خواتین موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں ۔لہذاکینسر سے بچاؤکے لئے مختلف آگہی پروگرام شروع کرنے چاہیں تاکہ شرح اموات میں کمی ہوسکے سیمینار سے خطاب کرتے ہو ئے مقررین نے کہا کہ گورنمنٹ سیکٹر کے ساتھ ساتھ این جی اوزکو بھی بریسٹ کینسر کے حوالے سے آگہی اورعلاج معالجے کی سہولت کو یقینی بنانے میں اپناکردار ادا کرناچاہیے یہ اسی صورت میں ممکن ہوگا کہ مخیر حضرات بریسٹ کینسر کے حوالے سے ٹرسٹ قائم کریں اور کم قیمت پر عوام کو یہ سہولت فراہم کریں انہوں نے کہا کہ بریسٹ کینسر کا مرض گھریا خاندان کے کسی ایک فرد کو لاحق ہوتا ہے تو اسکی وجہ سے پورا خاندان معاشی اور ذہنی لحاظ سے متاثر ہوتا ہے۔ لہذاوقت کاتقاضا ہے کہ بریسٹ کینسر کے حوالے سے عوام کو بھرپورآگہی دی جائے تاکہ احتیاطی تدابیر اختیار کر کے اس موذی مرض سے چھٹکاراحاصل کیاجا سکے اس موقع پر پروفیسر عذرا وحید ،پروفیسر عفت نورین ،سماجی تنظیم (ماڈا) کے صدر محمد مظہررشید چودھری سمیت کالج اساتذہ اور طالبات کی کثیر تعداد موجود تھی بعد ازاں علامتی آگہی واک کی گئی۔
