تحریر:قاسم علی…
پاکستان میں سیاسی جماعتوں کی جانب سے ہر صورت الیکشن جیتنے کی خواہش نے الیکٹ ایبلز کی اہمیت کو بڑھا دیا ہے یہی وجہ ہے کہ ہر پارٹی ہر اس بندے کو الیکشن میں ٹکٹ جاری کرنا شروع ہوگئی ہے جو پہلے کبھی الیکشن جیت چکا ہو ۔اس کیلئے یہ بھی دیکھنا مناسب نہیں سمجھا جاتا کہ اس الیکٹ ایبلز کا سابقہ سیاسی ریکارڈ کیسا ہے اور آیا کہ اس کے سیاسی نظریات پارٹی کیساتھ ملتے بھی ہیں یا کہ نہیں ۔اگر اچہ الیکٹ ایبلز کی اس سیاست پاکستان تحریک انصاف کو جنوبی پنجاب میں کئی جگہ کامیابی سے ہمکنار کربھی گئی تاہم ضلع اوکاڑہ میں الیکٹ ایبلز بری طرح ناکام ہوئے صرف پی ٹی آئی ہی نہیں پاکستان مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کو چھوڑ کر آزاد لڑنے والے بھی بری طرح پٹ گئے۔اسی طرح اپنی سیٹ نکالنے کیلئے پارٹی کیساتھ وفاداری بدلنے والوں کو بھی عوام نے مسترد کردیا۔ذیل میں چند ایسی شخصیات کا ذکر کیا گیا ہے۔
سید رضا علی گیلانی۔
سید رضا علی گیلانی کا خاندان گزشتہ 33برسوں سے مسلسل برسراقتدار رہاتھا اور گزشتہ دور حکومت میں سید رضا علی گیلانی صوبائی وزیربرائے ہائیرایجوکیشن بھی رہے مگر موجودہ انتخابات سے پہلے سیدرضا علی گیلانی اور ایم این اے راؤمحمداجمل خان کے درمیان شدید اختلافات پیدا ہوگئے جس کے سبب یہ تک سننے میں آیا کہ اعلیٰ قیادت یا تو شاہ مقیم گروپ کو ساتھ رکھ لے یا پھر راؤاجمل خان کو رکھ لے۔اس جھگڑے کو عروج اس وقت ملا جب مسلم لیگ نے این اے 143میں راؤمحمد اجمل خان کو مضبوط امیدار سمجھتے ہوئے پارٹی ٹکٹ دے دی ۔اسی وقت پارٹی نے سید رضا علی گیلانی کو بھی ٹکٹ دی مگر انہوں نے پارٹی ٹکٹ ٹھکرا کر آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے کو ترجیح دی ۔جس پر پاکستان مسلم لیگ ن نے اس حلقہ میں معروف اینکر پرس اور نجم سیٹھی کی اہلیہ سیدہ جگنو محسن کی حمائت کی اور وہ بھاری اکثریت سے کامیاب ہوگئیں۔رضا علی گیلانی نے انہوں نے سیدہ جگنو محسن کے 62506ووٹوں کے مقابلے میں 41068ووٹ لئے اور واضح فرق سے ہارے اس طرح حجرہ میں گیلانی خاندان کا 33سالہ اقتدار کاسورج غروب ہوگیا۔
سید صمصام شاہ بخاری۔
این اے 141میں پاکستان تحریک انصاف کے پاس مسعود شفقت ربیرہ کی صورت میں ایک بہترین امیدوار موجود تھا جس کو اگر ٹکٹ دے دیا جاتا تو وہ باآسانی سیٹ نکالنے کی پوزیشن میں تھا مگر پی ٹی آئی نے یہاں پر فاش غلطی کی اور صمصام شاہ بخاری جیسے الیکٹ ایبل کو ٹکٹ جاری کردی ۔جو کہ پاکستان مسلم لیگ نواز کے ندیم عباس ربیرہ سے عبرتناک شکست سے دوچار ہوئے اس الیکشن میں ندیم عباس ربیرہ نے 92841ووٹ حاصل کئے جبکہ صمصام بخاری محض 60217تک پہنچ کر ہمت ہارگئے۔
وٹو خاندان کی تنزلی۔
ایک وقت تھا جب اوکاڑہ کو دوسرا لاڑکانہ کہاجاتا تھا مگر اب یہ وقت آیا کہ سابق وزیراعلیٰ پنجاب اور پیپلز پارٹی کی مرکزی نائب صدارت کے عہدے پر براجمان میاں منظور وٹو نے بھی الیکشن میں جیت کیلئے پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر کھڑا ہونامناسب نہیں سمجھااور آزاد حیثیت میں اس سیاسی اکھاڑے میں کود پڑے ۔یادرہے میاں صاحب اس سے قبل دو،دو حلقوں سے الیکشن لڑکر بھی فتحیاب ہوتے رہے مگر اس بار عوام نے انہیں بھی مسترد کرڈالا۔ان کا مقابلہ اس بار پھر معین خان وٹو کیساتھ تھا جنہوں نے 118670ووٹ لئے جبکہ میاں منظور احمد خان وٹو 105585کے ہندسے تک ہی پہنچ پائے۔یہی نہیں بلکہ پی ٹی آئی نے ان کے الیکٹ ایبلزبیٹے میاں خرم جہانگیروٹو کو بھی پی پی 186میں نورالامین وٹو سے شکست کا داغ ملا ۔نوالامین نے 57439جبکہ میاں خرم جہانگیر وٹو نے 50320ووٹ حال کئے ۔جبکہ میاں صاحب کی بیٹی روبینہ شاہین وٹوکابھی کامیابی نہ مل سکی اور وہ پی پی 185میں میاں افتخار حسین چھچھر کے 48910ووٹوں کے مقابلے میں 42630ووٹ لے پائیں۔
سید گلزارسبطین شاہ۔
دیپالپور میں حلقہ این اے 143 سے پی ٹی آئی کے پانچ امیدواروں نے ٹکٹ کیلئے اپلائی کیا مگر پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت نے ان پانچوں امیدواروں کو مسترد کے یہاں بھی الیکٹ ایبل کو اہمیت دیتے ہوئے سید گلزارسبطین شاہ کو ٹکٹ جاری کردیا جو کہ راؤمحمد اجمل خان کے مقابلے میں پچاس ہزار کے واضح مارجن سے شکست کھا گئے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں آئندہ انتخابات میں بھی الیکٹ ایبلز کی سیاست کا تجربہ کتنا کامیاب رہتا ہے اور کیا سیاسی جماعتیں آئندہ بھی اسی طرزسیاست کو فروغ دیتی ہیں یا کہ اپنے نظریاتی کارکنوں کو ترجیح دیں گی۔
