تحریر:قاسم علی…
قدرت کے نظام میں کسی کا کوئی عمل دخل نہیں ہے کہ کس کو کیا دینا اور کس کو کیا نہیں دینا وہ خوب جانتی ہے۔مگر دنیا میں ہماری نظروں سے بعض اوقات ایسی چیزیں گزرتی ہیں کہ جنہیں دیکھ کر انسان کا دل پسیج کر رہ جاتا ہے۔اوکاڑہ کے رہائشی چار نابینا بھائیوں کا قصہ بھی کچھ ایسا ہی ہے کہ جو کوئی بھی دیکھتا اور سنتا ہے اس کا دل خون کے آنسو روتا ہے۔اوکاڑہ کے عثمان ٹاؤن کے رہائشی اللہ رکھا غفاری نے اوکاڑہ ڈائری کو بتایا کہ 1976ء میں ان کی شادی اپنے رشتے داروں میں ہوئی تھی اور اللہ تعالیٰ نے انہیں پانچ بیٹوں اور دو بیٹیوں سے نوازا۔وہ بتاتے ہیں کہ ان کے پہلے چاروں بیٹے حافظ غلام صابر غفاری، ظفر اقبال، محمد احمد غفاری اور مبارک علی پیدائشی طور پر ہی نابینا تھے جبکہ ان کے بعد پیدا ہونیوالے پانچویں بیٹے نذر حسین اور ان کی دو بیٹیوں کی آنکھیں بالکل ٹھیک ہیں۔
بیٹوں کے نابینا ہونے کا دکھ ایک طرف تھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ لوگوں کی طرح طرح کی باتیں سننا پڑتی تھیں کہ اگر یہ بچے نارمل ہوتے تو آپ کیلئے پریشانی کا موجب نہ بنتے۔” اللہ رکھا”
اللہ رکھا کا کہنا ہے کہ یکے بعد دیگرے چار نابینا بچوں کی پیدائش تو ایک آزمائش تھی ہی لیکن ان کی پرورش اور دیکھ بھال ایک بہت مشکل مرحلہ تھا۔وہ بتاتے ہیں کہ بیٹوں کے نابینا ہونے کا دکھ ایک طرف تھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ لوگوں کی طرح طرح کی باتیں سننا پڑتی تھیں کہ اگر یہ بچے نارمل ہوتے تو آپ کیلئے پریشانی کا موجب نہ بنتے۔”لیکن میں نے کبھی بھی لوگوں کی باتوں پر کان نہ دھرے اور جہاں تک ممکن ہو سکا اپنے نابینا بیٹوں کو دینی اور عصری تعلیم دلوائی۔”اللہ رکھا کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے بیٹوں کا چیک اپ کروایا مگر ڈاکٹروں کے مطابق ان کے بیٹوں کی بینائی بیرون ممالک میں جدید طریقہ علاج سے ممکن ہے مگر اتنا خرچہ وہ برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ان کا کہنا ہے کہ ایک ہی گھر میں چار نابینا بچوں کی موجودگی کسی المیے سے کم نہیں تھی مگر حکومت کی جانب سے ان کی کوئی مدد نہیں کی گئی۔حافظ غلام صابر غفاری اللہ رکھا کے سب سے بڑے بیٹے اور ابو ذر غفاری مدرسہ اوکاڑہ کے مہتمم ہیں۔انہوں نے بتایا کہ پہلے ان کے تینوں بھائی نعت خوانی کرتے تھے لیکن 2014ء میں ان کو سرکاری ملازمت مل گئی۔
عدنان یونس اوکاڑہ کے سماجی ورکر ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ پانچ سال قبل محکمہ بیت المال نے سپیشل فیملی پروگرام شروع کیا تھا جس کے تحت حکومت نے ایک خاندان میں دو یا دو سے زیادہ معذور افراد کو سپیشل فیملی قرار دے کر 50 ہزار روپے دیتے تھے۔اس پروگرام میں اللہ رکھا کی فیملی کے لیے بھی تعاون کی درخواست کی گئی مگر بیت المال نے ہدف پورا ہونے کا جواز بنا کر ان کی درخواست کو مسترد کر دیا.
اپنے جیون ساتھی کیلئے میں نے نابینا لڑکی کا انتخاب کیا ہے کیونکہ نارمل لوگ انہیں قبول نہیں کرتے ہیں۔”محمد غفاری”
عدنان یونس نے بتایا ہے کہ حکومت کی طرف سے متعدد معذور افراد کو نظر انداز کرنے پر تین دسمبر 2014ء کو معذوروں نے لاہور پریس کلب سے وزیراعلیٰ ہاؤس تک احتجاجی ریلی بھی نکالی۔اس احتجاج کے ذریعے معذور افراد کی آواز اعلیٰ حکام تک پہنچی اور ان کے لیے ملازمتوں کے دروازے کھل گئے۔انہی آرڈرز کی روشنی میں ظفر اقبال غفاری اور محمد احمد غفاری کو 21 فروری 2016ء کو محکمہ تعلیم میں درجہ چہارم کی ملازمت دے دی گئی۔یاد رہے کہ چاروں بھائیوں میں سے ایک بھائی غلام صابر کی شادی ہوئی ہے جبکہ دوسرے بھائی محمد احمد غفاری کی منگنی ایک نابینا لڑکی سے کی گئی ہے۔نابینا لڑکی سے منگنی کے حوالے سے محمد احمد غفاری کا کہنا ہے کہ اپنے جیون ساتھی کیلئے میں نے نابینا لڑکی کا انتخاب کیا ہے کیونکہ نارمل لوگ انہیں قبول نہیں کرتے ہیں۔انہوں نے بتایا ہے کہ انہیں دوران ملازمت کوئی خاص مشکل پیش نہیں آتی، وہ سفید چھڑی سے فائلیں ایک کمرہ سے دوسرے کمرے میں باآسانی پہنچا دیتے ہیں۔یاد رہے کہ مبارک علی کو بلڈنگ ڈیپارٹمنٹ میں ڈیلی ویجز کی ملازمت دی گئی ہے اور غلام صابر مدرسہ کے مہتمم ہیں۔رانا محمد اشرف ای ڈی او کمیونٹی ڈویلپمنٹ اوکاڑہ ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ سوشل ویلفیئر کی کاوشوں سے ضلع اوکاڑہ میں 30 سے زائد نابینا افراد کو ملازمتیں مل چکی ہیں جن میں سے تین یہ نابینا بھائی بھی شامل ہیں۔انہوں نے کہا کہ باقی معذور افراد کی ملازمت کے حوالے سے بھی عملی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
