بھٹہ خشت کی بندش کا فیصلہ کتنا درست ہے ؟
تحریر:قاسم علی…
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت سے ایک عام آدمی نے بہت سی توقعات وابستہ کررکھی ہیں جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین جناب عمران خان کئی سال سے اس نظام کو استحصالی قرارد دے کر اس کو تبدیل کرنے اور عوام کو سہولیات فراہم کرنے کے وعدے اور عوے کرتے آئے ہیں مگر ان کی حکومت قائم ہوئے ابھی ایک ماہ بھی نہیں ہوا کہ بھٹہ خشت کی دوماہ کیلئے بندش کا اعلان کرکے اسی عام آدمی پر بجلی گرادی گئی ہے۔
حکومت کا یہ فیصلہ بیروزگاری کاایک سونامی لائے گا کیوں کہ بھٹہ خشت ،کان کنی اور تعمیراتی سیکٹر میں کام کر کے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے والے تقریباََ چار کروڑ کے لگ بھگ افراد اس فیصلے سے متاثر ہوں گے اور ان کیلئے ان دوماہ کے دوران متبادل روزگار کا بندوبست کرنا ہرگز آسان نہیں ہوگا ۔
اس فیصلے کی بڑی وجہ حکومت کی جانب سے یہ بتائی گئی ہے کہ بھٹہ خشت ماحولیاتی آلودگی کا سب سے بڑاذریعہ ہیں اور ان بھٹوں کی چمنیوں سے نکلنے والا دھواں سردیوں میں سموگ کا باعث بنتا ہے جس کی وجہ سے ہر سال سینکڑوں افراد حادثات کی نظر ہوجاتے ہیں اور یہ سموگ گلے اور پھیپھڑے کی متعدد امراض کا سبب بھی بنتی ہے یہی وجہ ہے کہ حکومت کو یہ فیصلہ کرنا پڑا ہے۔
اس کیساتھ ہی اس فیصلے پر تنقید کرنے والوں کو پی ٹی آئی حکومت کے حامی یہ جواب دیتے ہیں کہ یہ فیصلہ ہرگز موجودہ حکومت کا نہیں ہے بلکہ بھٹہ خشت کی بندش کا معاملہ سابقہ حکومت عدالت لے کرگئی تھی اور یہ اسی تناظر میں فیصلہ کیا گیا تھا جس پر ہماری حکومت عمل پیرا ہے اس لئے خان کی حکومت پر بلاوجہ تنقید کے تیر نہ چلائے جائیں۔
دوسری جانب معاشیات پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین اس فیصلے کو احمقانہ ہی نہیں بلکہ آمرانہ بھی سمجھتے ہیں کیوں کہ حکومت نے اس بڑے اقدام سے پہلے بھٹہ خشت کی بڑی انڈسٹری سے رابطہ کرنا اور ان سے مشورہ کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا جس کے سبب کروڑوں افراد کا چولہا جل رہاہے حکومت کے اس یکطرفہ فیصلے پر بھٹہ مالکان بہت برہم ہیں۔
بھٹہ مالکان کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے کیلئے اقدامات کے ہم ہرگز مخالف نہیں ہیں مگر بہتر ہوتا کہ حکومت کی جانب سے ہمیں اپنے بھٹوں کوجدید ترین زگ زیگ ڈیزائن کے مطابق ڈھالنے کیلئے نہ صرف مناسب وقت دیا جاتا بلکہ اس مہنگی ٹیکنالوجی کی تنصیب کیلئے حکومت کمزور بھٹہ مالکان کی مالی معاونت بھی کرتی اس طرح نہ تو کوئی بھٹہ بندکرنا پرتا اور نہ ہی ان بھٹوں پر کام کرنے والے مزدوروں کوغم روزگار کا سامنا کرنا پڑتا۔
محمد اسلم ایک بھٹہ پر مزدور ہے اس کا کہنا ہے کہ
میں اور میری بیوی شروع سے ہی بھٹہ پر اینٹیں نکالنے کا کام کرتے ہیں اورمجھ سے قبل میراباپ بھی یہی کام کرتا تھا ہمارا روزگار اسی صنعت کیساتھ وابستہ ہے اب ہم سن رہے ہیں کہ یہ بھٹے بیس اکتوبر سے بند ہورہے ہیں یہ فیصلہ ہمارے لئے ایک ڈراؤنے خواب سے کم نہیں کیوں کہ ہمیں تو کوئی اور کام بھی نہیں آتا اور ویسے بھی اگر کہیں اور ملازمت کی کوشش کی بھی گئی تو صرف ایک دوماہ کیلئے کون نوکری دے گا ہمیں ۔مجھے اپنی اور اپنے بچوں کی بہت فکر ہورہی ہے۔
مستریوں کا کام بھی اسی صنعت کیساتھ وابستہ ہے ایک مستری فیض محمد سے جب میں نے اس حکومتی فیصلے بارے رائے لینا چاہی تو اس کا کہنا تھا کہ
میں نے دن رات محنت کرکے اپنے بیٹے کو پڑھایا لکھایا اس امید پر کہ یہ میرا سہارا نے گا اور پاکستان تحریک انصاف کی حکومت قائم ہونے اور خاص طور پر عمران خان کی طرف سے ایک کروڑ نوکریوں کے اعلان کے بعد تو میری آنکھیں بھی خوشحالی کے خواب دیکھنا شروع ہوگئی تھیں کیوں کہ اب مجھے یقین تھا کہ میرا بیٹا بھی اب جلد ہی افسر بن جائے گا مگر بھٹہ خشت کی بندش کے اعلان کے بعد میری آنکھیں ایسے خوابوں کی بجائے آنسوؤں کی ٓاماجگاہ بن گئی ہیں کیوں کہ میرے پانچ بچے اس وقت کھانا کھاتے ہیں جب میں شام کو دیہاڑی لے کر جاتا ہوں۔
بھٹہ خشت کی بندش کے اعلان کے بعد ایک اور قباحت جو دیکھنے میں اارہی ہے وہ یہ ہے کہ کئی بھٹہ مالکان نے اینٹوں کے دام ایک دم بڑھا دئیے ہیں جو اینٹ پہلے چھ ہزار میں مل رہی تھی وہ اب دس ہزار تک پہنچ چکی ہے اگرچہ بھٹہ مالکان اس الزام کی تردید کرتے ہیں مگر اینٹیں خریدنے والوں کا کہنا ہے کہ ہمیں رسید اصل ریٹ کی ہی دی جاتی ہے مگر وصول دوگنا کئے جارتے ہیں جو کہ سراسرظلم ہے اور یہ ظلم نہ جانے کب تک جاری رہے گا پرائس کنٹرول کمیٹیوں کا کوئی تصور بھی نہیں جو ان ریٹس کو کنٹرول کرسکے کیوں صارف بھی آج کل مجبور ہے وہ کسی پرائس کنٹرول کمیٹی کو شکائت بھی نہیں کرتا۔
حاجی ہاشم علی کا کہنا ہے کہ اس نے مکان کی تعمیر شروع کی لیکن اب اینٹیں نہیں مل رہیں اس لئے میں نے اس کو روک دیا ہے مگر مجھے اب یہ خیال بھی پریشان کئے ہوئے ہے کہ دوماہ بعد جب میں دوبارہ اس کو بنانا شروع کروں گا تو اس وقت اینٹیں اصل ریٹ پر مل پائیں گی یا کہ مجھے ااضافی معاوضہ ادا کرنا ہوگا اگر ریٹ پر کنٹرول نہ کیا گیا تو بیروزگاری کیساتھ ساتھ مہنگائی کا طوفان بھی آئے گا۔
محمدطاہر کا کہنا ہے کہ خان صاحب نے ایک کروڑ نوکریوں کا اعلان کیا مگر وہ احکامات ایسے جاری کررہے ہیں جس سے کروڑوں نوکریاں تو نہیں ملیں گی البتہ کروڑوں لوگ بیروزگار ضرور ہوجائیں گے اور مکان بنا کر دینا تو بعد کی بات ہے جو غریب لوگ اپنے پیسوں سے مکان بنا رہے تھے وہ بھی اب رک گئے ہیں ۔حکومت کو ماحولیاتی آلودگی کو کنٹرول کرنے کیلئے مناسب حکمت عملی اپنا نا ہوگی جس سے یہ صنعت بند نہ ہو اورلوگ بیروزگار نہ ہوں