تحریر:قاسم علی…
پاکستان میں کچھ عرصے سے احتجاج کی روائت ہی چل پڑی ہے اور اس روائت کی ذمہ داری حکومت ہی پر آتی ہے کہ یہ عمومی طور پر یہی دیکھنے میں آتا ہے کہ احتجاج کے بغیر کسی کا مسئلہ حل ہوتا ہی نہیں ہے۔اس سلسلے میں تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال دیپالپور کے سینٹری ورکرز کو بھی دوماہ تنخواہیں نہ ملنے اور دیگر مطالبات پورے کروانے کیلئے احتجاج کرنا پڑگیا ہے ۔
ان سینٹری ورکرز نے تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال کے ایمرجنسی گیٹ پر کوڑا کرکٹ پھینک کر اپنا احتجاج ریکارڈ کروایااور اپنے مطالبات کے حق بھی بھرپور نعرے بازی بھی کی۔
ان مظاہرین میں موجود عابد نامی ایک سینٹری ورکر کا کہنا تھا کہ اس ہسپتال میں کل انچاس سینٹری ورکرز کام کرتے ہیں جن میں سے 35میل جبکہ 14فی میل سٹاف ہے ۔اس کا کہنا تھاکہ وہ گزشتہ دس ماہ سے تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال میں جاب کررہاہوں پہلے حکومت ہمیں تنخواہ دیتی تھی اور اس ہمیں بالکل ٹھیک وقت پرتنخواہ ملتی تھی لیکن تقریباََ پانچ ماہ قبل حکومت نے صفائی معاملات پرائیویٹائز کردئیے اور اس ہسپتال کا ٹھیکہ بھی پرائیویٹ کمپنی ہانس برادرز کودے دیا گیا ہے اور اس وقت کے بعد سے ہمارے لئے مشکلات و مسائل کا ایک دور شروع ہوگیا ہے جس کی وجہ سے ہم شدید ذہنی اذیت کا شکار ہیں۔
دوسرے سینٹری ورکرمحمد احمد نے بتایا کہ پرائیویٹ کمپنی سے پہلے حکومت تمام سینٹری ورکرز کو سترہ ہزار روپے تنخواہ دیتی تھی مگرجب حکومت نے صفائی کیلئے اس کمپنی کو ٹھیکہ دیا تو شروع میں ان لوگوں نے ہمیں کہا کہ پہلے دو ماہ آپ کو دس ہزار تنخواہ دیں گے اس کے بعد پندرہ ہزار کردی جائے گی مگر یہ وعدہ پورا نہیں کیا گیا بلکہ گزشتہ دوماہ سے ہم سرے سے ہی تنخواہوں سے محروم ہیں جس کے بعد ہمارے لئے کچن چلانا بھی انتہائی مشکل ہوگیا ہے۔
احمدنے بتایا کہ اول تو پندرہ ہزار میں بھی گھر چلانا محال ہے لیکن اس میں بھی تخفیف کرکے اس کو دس ہزار کردیا گیا اور اب وہ بھی نہیں دی جارہی ہے۔اس نے مزید بتایا کہ دس ہزار تنخواہ کے حساب سے ہماری یومیہ مزدوری 350روپے بنتی ہے لیکن اگر ہمیں کسی ایمرجنسی کی وجہ سے چھٹی کرنا پڑجائے تو ایک یوم کی 500روپے کٹوتی کی جاتی ہے ۔صرف یہی نہیں بلکہ ہمیں گلے میں ڈالنے کیلئے کمپنی جو کارڈ اور پہننے کیلئے جو وردی فراہم کرتی ہے اس کی قیمت بھی ہماری تنخواہ سے وصول کی جاتی ہے۔
وسیم بی بی نے کہا کہ یہ کمپنی ہم پر بہت زیادتی کرتی ہے نہ صرف ہمارا حق مارتی ہے بلکہ ان کے ملازم ہماری عزت نفس بھی مجروح کرتے ہیں ہم سارا سارا دن وارڈز،ایمرجنسی اور واش رومز کی صفائی کرتے کرتے نڈھال ہوجاتے ہیں لیکن اس کا صلہ ہمیں کبھی بھی بروقت نہیں ملتا ۔اس نے مزید بتایا کہ مزدوروں کے ڈیوٹی اوقات آٹھ گھنٹے ہوتے ہیں مگر ہم سے دس بارہ گھنٹے تک بھی ڈیوٹی کروائی جاتی ہے ۔گھر میں ہمارے بچے اور گھر والے ہمارے منتظر ہوتے ہیں مگر ہمیں تنخواہ کیساتھ چھٹی بھی ٹائم پر نہیں ملتی ہے۔
خوشاب نے کہا کہ کمپنی کام لینے میں بھی اپنی پسند ناپسند کو ترجیح دیتی ہے ان کا پسندیدہ ملازم یا ملازمہ کام کرے یا نہ کرے اور جتنی چاہے چھٹیاں کرے ان کو کوئی نہیں پوچھتا ہے جبکہ جس کو چاہیں بے عزت کردیتے ہیں۔
خواتین سینٹری ورکرز نے یہ الزام بھی عائد کیا ہے کہ کمپنی عملے کو خواتین کیساتھ بات کرنے کی بھی تمیز نہیں ہے اور یہاں تک کہ خواتین کو ہراساں کرنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے ان کے اسی سلوک کی بنا پر کئی ملازمین نوکری چھوڑ کر جاچکے ہیں۔جب ہم ان سے اس بارے بات کریں تو کہتے ہیں کہ کام کرنا ہے تو ہماری بات ماننا ہوگی ورنہ چھوڑ کر چلے جائیں۔
مظاہرین کا یہ بھی کہنا تھا کہ جب ہم اس بارے کمپنی نمائندے سے بات کرتے ہیں کہ ہمیں تنخواہ کم کیوں دی جارہی ہے تو ہمیں کہا جاتا ہے کہ تم لوگوں کی صفائی ستھرائی بہتر نہ ہونے سے ہمیں بھاری جرمانہ ہوجاتا ہے جو آپ کی تنخواہوں سے ہی کاٹا جائے گا۔سینٹری ورکرز نے مطالبہ کیا ہے کہ نہ صرف ان کو وقت پر تنخواہیں دی جائیں بلکہ یہ دیگر ہسپتالوں کی طرح پندرہ ہزار بھی دی جائیں۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ ہمیں کارڈز اور یونیفارم جو فراہم کیاجاتا ہے اس کی پیمنٹ بھی ہم سے وصول کرنا بند کیاجائے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ تمام ملازمین خصوصاََ خواتین کیساتھ بدتمیزی کا رویہ ختم کیا جائے اور کسی کی بھی عزت نفس کو مجروح نہ کیاجائے انہوں نے کہا کہ اگر ہمارے مطالبات پورے نہ ہوئے تو ہم بہت جلد بڑا احتجاج کرنے پر مجبور ہوں گے۔
ہانس برادر کے ضلعی کوارڈینیٹر محمدعمران مانی نے کہا کہ وہ تمام ملازمین کے ساتھ یکساں سلوک کے قائل ہیں اگر اس بارے کسی کو کوئی شکائت ہوئی تو میں خود اس کا ازالہ کروں گا جبکہ تنخواہوں کی کمی اور دیگر معاملات پر بھی کمپنی ملازمین کے تحفظات کو اعلیٰ حکام کے نوٹس میں لایا جائے گا کسی کیساتھ زیادتی نہیں برداشت نہیں ہوگی۔
دوسری جانب عوامی و سماجی حلقوں نے کمپنی کے رویے پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ صورتحال مجبوری سے فائدہ اٹھانے کے متراف ہے اور غریب مزدوروں کو تنخواہیں نہ دینا اور کم دینا قابل مذمت ہے ۔محکمہ صحت کو اس معاملے پرخصوصی توجہ دے کر اس کو حل کرنا چاہئے۔
