govt.high school depalpur mai tanzeem asatza ka salana program 657

تنظیم اساتذہ کی سیرت النبی ﷺ کانفرنس کا مکمل احوال

تحریر:قاسم علی…

تنظیم اساتذہ گزشتہ دس برس سے ضلع اوکاڑہ میں سیرت النبی کانفرنس کا اہتمام کرتی آرہی ہے اس بار یہ کانفرنس دیپالپور ماڈل ہائی سکول میں منعقد ہوئی تقریب صبح گیارہ بجے شروع ہوئی جس میں سٹیج سیکرٹری کے فرائض تنظیم اساتذہ کے صدر ضلع اوکاڑہ حافظ آصف جاوید نے بہت خوبصورتی سے ادا کئے ۔اس پروگرام کے مقررین نے انتہائی پُرمغز گفتگو کی جس کو تحریری شکل میں آپ کے سامنے پیش کیاجارہاہے جو یقینی طور پر اہل علم کیلئے کسی اہم دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے.
پروفیسر محمد نعیم صاحب ۔
پروفیسرمحمدنعیم صاحب نے کہا کہ ایک عشرے سے یہ کانفرنسیں تنظیم اساتذہ کے زیراہتمام منعقد کی جارہی ہیں جن کا مقصد یہ ہے کہ ہم اپنے آقا حضرت محمد ﷺ کی اسوہ حسنہ ﷺ کو سمجھیں اور ان مبارک اعمال کو نہ صرف اپنی زندگی کا حصہ بنائیں بلکہ اس نسلِ نو کو بھی آپ ﷺ کی سیرت طیبہ پر لانے کی ترغیب دیتے رہیں انسان کو اللہ نے زمین پر اپنا نائب مقرر کیا ہے اللہ نے تمام کائنات کوانسان کیلئے بنایا جبکہ انسان کو اپنے لئے بنایا مگر شیطان ہمیں انسانیت سے گِرانے کیلئے کوشاں ہے اور جدید نظام تعلیم جو کہ مادی ضروریات کے پیش نظر تشکیل دیا گیا ہے وہ انسان کو انسان کے مرتبے سے اتارکر حیوانیت کی طرف لے جارہاہے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم بطور مسلمان اپنے منصب اور مقصد کو پہچانیں اور اپنی آنیوالی نسلوں کو بھی یہ پیغام دیں کہ ہمارا مقصد وہ نہیں جو یہ موجودہ نظام تعلیم ہمیں دکھا اور سکھا رہاہے بلکہ ہمارا مقصد ہر حال میں اللہ کی رضا اور بندگی ہے تبھی ہم فلاح دارین حاصل کرسکتے ہیں موجودہ نظام کا بیانیہ یہ ہے کہ انسان کا اصل مسئلہ معاش ہے اور جو انسان جتنا معاشی طور پر خوشحال ہوگا وہ اتنا ہی زیادہ کامیاب سمجھا جائیگا گویا جدید نظام تعلیم کے نزدیک ترقی کی علامت صرف معاشی خوشحالی کو گردانا جاتا ہے مگر اس کے برعکس ایک مسلمان کے نزدیک اصل ترقی اخلاقی ترقی ہے جبکہ مجھے افسوس کیساتھ یہ کہنا پڑرہاہے کہ موجودہ نظام تعلیم میں اخلاقی ترقی و تربیت کا عنصر بالکل شامل نہیں ہے ۔اخلاقی ترقی کی معراج تقویٰ ہے جس کو اختیار کرنیوالوں کیساتھ اللہ کا وعدہ ہے کہ ان کیلئے رحمتوں اور برکتوں کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں ۔
tanzeem ul asatza ki seerat ul nabi confrence
پروفیسر ڈاکٹر عبیدالرحمان صاحب۔
پروفیسر صاحب نے احسن الاخلاق کے موضوع پر روشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ حضور ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ تم میں سب سے بہتر وہ ہے جس کا اخلاق سب سے اچھا ہے قیامت کے روز میزان کے پلڑے میں سب سے زیادہ وزنی چیز انسان کا اخلاق ہوگا اور جنت میں سب سے زیادہ لوگ اپنے اعلیٰ اخلاق کی وجہ سے جائیں گے ۔پروفیسر صاحب نے فرمایا کہ پانچ چیزوں کا نام اخلاق ہے ۔سب سے پہلی چیز یہ ہے تمھارے چہرے پر بشاشت و تازگی ہو آپ کے چہرے پر ایسی محبت ہو جو دیکھنے والے کو بھاجائے فرمایا جب تم اپنے بھائی کو دیکھتے ہوئے اپنے چہرے پر مسکراہٹ بکھیرتے ہو تو تمھارے نامہ اعمال میں صدقہ کا اجر لکھ دیا جاتا ہے۔اخلاق کی دوسری نشانی نرم گفتاری ہے اور یہ نرم گفتاری نہیں ہے کہ ہم اپنے افسران اور کسی طاقتور کیساتھ تو بڑی نرمی سے پیش آئیں اور اپنے ماتحتوں اور کمزوروں پر چڑھ دوڑیں بلکہ اخلاق یہ ہے کہ ہم طاقتور اور کمزور ،حاکم و محکوم سب کیساتھ مسکراہٹ اور نرمی سے ملیں ۔اس ضمن میں ایک واقعہ بھی بیان کیا کہ ایک بار ایک اعرابی مسجد میں آیا اوروہاں پیشاب کردیا جس پر صحابہؓ کو بہت غصہ آیا اور چاہا کہ اعرابی کو اس حرکت کی سزا دیں مگر آپﷺ نے انہیں روک دیا جب وہ اعرابی فارغ ہوا تو آپ نے اسے اپنے پاس بلایا اور نرمی سے فرمایا کہ یہ اللہ کا گھر ہے یہاں نماز پڑھی جاتی ہے پیشاب نہیں کرتے ۔اس واقعہ میں یہ حکمت بھی پوشیدہ ہے کہ آپ چاہتے تو اس کو سزا دے سکتے تھے مگر اس سے ایک تو فورا پیشاب رکنے سے وہ بیچارہ کسی بیماری میں بھی مبتلا ہوسکتا تھا ،دوسرا یہ کہ یہ گندگی مسجد میں مزید پھیلتی اور سب سے اہم یہ کہ اس کو تو اپنے قصور کا ہی علم نہیں تھا کہ اس نے کیا جرم کیا ہے تو اس لئے آپ نے فوری ایکشن نہیں لیا اور بعد ازاں اس کو نرمی سے سمجھایا ۔جس کو وہ اعرابی زندگی بھر یادکرتا رہاکہ جب مجھ سے وہ غلطی ہوئی تھی تو میرے نبی ﷺ نے مجھے سزا دینا تو دور کی بات مجھے جھڑکاتک نہیں تھا ۔تیسری چیز جو آپ کے اخلاق کو ظاہر کرتی ہے وہ یہ کہ اللہ نے آپ کو جو صلاحیت،مال،جان ،اقتدار،علم اور جو کچھ دیا ہے اس کو حتی المقدور راللہ کے بندوں کی مدد میں صرف کرتا رہے ۔یہاں انہوں نے تعلیم کو کاروبار بنانے کی بھی مذمت کی ان کا کہنا تھا کہ تعلیم کو کاروبار بنانے کی بجائے صرف خدمت کا جذبہ ہونا چاہئے ہروقت ٹیوشنوں اور اکیڈمیوں کے نام پر نوٹ چھاپنے والی مشین بننا اخلاقیات کے خلاف ہے ۔چوتھی قسم یہ ہے کہ جب آپ کسی کو پریشان دیکھیں ،کسی مصیبت میں دیکھیں تو اپنے اس بھائی کی مدد کریں بزرگوں کے پاس بیٹھیں ان کی تکالیف سنیں اس سے ان کا دل ہلکا ہو جائے گا اس پر بھی آپ کو اجر ملے گا ۔ حسن اخلاق کی سب سے پانچویں چیزجو سب سے اہم بھی ہے وہ یہ کہ آپ خود سے زیادتی پر بدلہ لینے کی طاقت رکھنے کے باوجود اپنے مقابل کو معاف کردیں اور اس کی مزید تشریح انہوں نے بہت خوب کی کہ جب آپ خود سے طاقتور سے زیادتی کے بعد دب جاتے ہیں اور کچھ نہیں کر پاتے تو معاف کرنا نہیں بلکہ یہ تو ذلت ہے بلکہ معاف کرناتو یہ ہے کہ جب آپ سے کوئی کمزور یا ماتحت یعنی بیوی ،بچہ،شاگرد یا ملازم کوئی غلطی کردے اور آپ کو تکلیف دے تو آپ اس کواللہ کی رضا کیلئے معاف کردیں تو یہ اخلاق کی سب سے اعلیٰ قِسم ہے۔

ڈاکٹر سیف اللہ فیضی صاحب۔
ڈاکٹرسیف اللہ کی گفتگو نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیاان کا کہنا تھا کہ جب کسی بچے کی پنسل گم ہو جاتی ہے سکول میں اس کا بیگ کھو جاتا ہے تو وہ پریشان ہو جاتا ہے گھر میں کوئی برتن ٹوٹ جائے تو خاتون گھر سر پر اٹھالیتی ہے اسی طرح جب کوئی حادثہ پیش آئے یا قرض دار گھیرلیں تو گھر کے سربراہ کو نیند اڑجاتی ہے اس کی رات کروٹیں بدلتے گزرجاتی ہے اور اس پریشانی کا اظہار اس کی باڈی لینگوایج سے بھی جھلکتا نظرآتا ہے میرا آپ سے یہ سوال ہے اور یہ میرے لئے بھی ہے کہ اگر اللہ عزوجل نے ہماری ساری تدریسی زندگی نہیں ،دس بیس یا تیس سالہ زندگی نہیں صرف ایک رات اور رات کے بھی کسی ایک ایسے لمحے کے بارے میں سوال کرلیا کہ اے قوم کے معلم مجھے وہ ایک لمحہ لادو جس میں تم رات کو سوتے ہوئے اچانک ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھے ہو اور یکلخت تمھیں یہ خیال آیا ہو میں تو معلم ہوں ،میں نسلوں کا معمار ہوں،میں قافلوں کا سالار ہوں اور پیغمبرانہ پیشے کیساتھ وابستہ ہونے کا دعویدار ہوں کیا میں اپنی ذمہ داری ایمانداری سے ادا کررہاہوں تو کیا میرے اور آپ کے پاس ایک شب اور شب بھی نہیں ایک کروٹ بھی ایسی ہے جس میں ہم نے یہ فکر کی ہو۔انہوں نے مزید کہا کہ آج ہم یہ کہتے تو نہیں تھکتے کہ آپ ﷺ شافی محشر ہیں جو کہ آپ ﷺیقیناََہیں مگر اس کیساتھ ہمارا فرض نہیں کہ ہم لمحہ بھر کو سوچیں کہ ہم کدھر جارہے ہیں ہم نے کس طرح اپنی روایات و اسلامی تعلیمات کو بری طرح فراموش کردیا ہے ہم سب کسی نہ کسی ادارے میں پڑھا رہے ہیں کیا ہمارے پاس کوئی ایک مثال ہے کہ جب میں نے اور آپ نے دیکھا ہو کہ ایک بنچ پر دو سٹونٹ بیٹھے ہوئے یہ گفتگو کررہے ہوں کہ آج میری فجر کی نماز رہ گئی یا آج میں گھر سے سنت کے مطابق دعا پڑھ کر نہیں نکلا ۔میرے بھائیو اس صورتحال کے ذمہ دار ہم بھی ہیں ہماری نوجوان نسل جو اخلاقی اقدار سے نکل کر موبائل فون کی ٹچ سکرین اور انٹرنیٹ کی دلدل میں کھو چکی ہے اس میں کہیں نہ کہیں ہمارا کردار بھی ہے کہ ہم اپنا فرض بطور معلم اس طرح ادا نہیں کررہے جیسا کہ کرنا چاہئے۔
پروفیسر غلام اکبر قیصرانی صاحب۔
نائب صدر تنظیم اساتذہ پاکستان پروفیسر غلام اکبر قیصرانی صاحب نے اپنی گفتگو کے آغازمیں حضور ﷺ کی شکل و شباہت کا خاکہ اتنی خوبصورتی سے پیش کیا کہ حاضرین عش عش کراٹھے ۔قیصرانی صاحب نے کہا کہ جدید تہذیب طاقت اور اقتدار کے آنے کے بعد انسانیت کو بھول جاتی ہے اور طاقتور ممالک کمزوروں پر ظلم و ستم کی داستانیں رقم کررہے ہیں مگر اسلام قوت کے حصول کے بعد بھی درگز رکادرس دیتا ہے اس کے بعد آپ نے حضور اکرم ﷺ کے درگزر پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ حضور ﷺ کی ساری زندگی درگزر پر مبنی ہے اس ضمن میں انہوں نے دوواقعات کا خصوصی طور پر ذکر کیا ایک جب آپ نے مکہ فتح کیا یہ ایسا موقع تھا جب آپ ﷺ کے پاس انتہائی قوت و اقتدار تھی مگر آپ نے درگزر سے کام لیا دوسرا موقع وہ تھا جب طائف کے سرداروں نے آپ ﷺ پر پتھر پھینکے اور انتہائی پریشان کیا اس وقت فرشتہ آپ ﷺ کے پاس آیا اور عرض کی کہ اگر آپ ﷺ حکم کریں تو میں طائف کے دونوں پہاڑوں کو آپس میں ملا دوں اور ان سب کو پیس ڈالوں ؟ مگر اس وقت بھی آپ ﷺ نے فرمایا کہ نہیں یہ نہیں تو ان کی آنیوالی نسلیں ایمان لے آئیں گی اور پھر یہی ہوا ان طائف والوں کی نسلیں نہ صرف مسلمان ہوئیں بلکہ انہوں نے پوری دنیا میں اسلام کا پیغام پہنچایا انہی میں سے ایک محمد بن قاسم بھی تھا جو طائف سے اٹھا اور ملتان تک اسلام کا جھنڈا لہرا گیا ۔انہوں نے اساتذہ سے کہا کہ وہ انتہائی خوش قسمت ہیں جو ایک تو پیغمبرانہ پیشے سے وابستہ ہیں اور دوسرا ان کا تعلق بچوں کیساتھ ہوتا ہے جو انبیاء کی طرح ہی معصوم ہوتے ہیں ۔انہوں نے اساتذہ کو یہ خوشخبری بھی دی کہ تنظیم اساتذہ کی کاوشیں رنگ لاچکی ہیں اور اب کی بار جو تعلیمی پالیسی لائی جارہی ہے وہ انشااللہ اسلامی اصولوں کے عین مطابق ہوگی جس کیلئے ہم وزیرتعلیم انجینئر بلیغ الرحمان کے انتہائی شکرگزار ہیں۔
تقریب کے دوران ریٹارڈ ہونے والے اساتذہ کرام جن میں غلام شاہ علی،حاجی محمد نواز ،محمد ارشاد سنگو کا اور پروفیسر عطااللہ شامل تھے کو یادگاری شیلڈز سے نوازا گیا.اس موقع پر میاں عبدالسلام اور پروفیسر اللہ دتہ نے نفاذ اردواور ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں بھرتیاں مستقل بنیادوں پر کرنے کی قراردادیں بھی پیش کیں جنہیں متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا.
پروگرام کے اختتامی کلمات پرنسپل ماڈل ہائی سکول جناب حافظ منور علی صاحب نے ادا کئے اور تمام حاضرین کا شکریہ ادا کیااس طرح یہ یادگارعلمی تقریب اپنے اختتام کو پہنچی جس میں بہت کچھ سیکھنے کو ملا میں ایک بار پھر صدر تنظیم اساتذہ پاکستان کے صدر ضلع اوکاڑہ برادرم حافظ آصف جاوید صاحب کا مشکور ہوں کہ انہوں نے اس پروگرام کیلئے اس خاکسار کو بھی یاد رکھا بلا شبہ ایسے پروگرام موجودہ وقت کی انتہائی ضرورت ہیں ۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں