تحریر: قاسم علی …
جیسی کرنی ویسی بھرنی کا مقولہ تو آپ نے سنا ہی ہوگا حویلی لکھا میں اس کا عملی مظاہرہ اس وقت سامنے آیا جب بیٹوں کے ہاتھ باپ مارا گیا یا درہے اسی باپ نے چند برس قبل اپنے باپ کیساتھ بھی یہی سلوک کیا تھا ۔
قصہ کچھ یوں ہوا کہ جنوری کے آخری ہفتے دیپالپور کے نواحی گاؤں رتیکی سے ایک پچاس سالہ شخص کی گمشدگی کی خبر سوشل میڈیا پر سامنے آئی غائب ہونیوالے نسیم کھرل نامی کے بیٹے لوگوں سے کہتے بھرتے تھے کہ ان کا باپ چن پیر میلے پر گیا مگر واپس نہیں آیا ۔اس کے بعد وہ حویلی لکھا تھانہ میں بھی رپورٹ کی کہ ان کا باپ دو روز سے غائب ہے۔
اس کے بعد کی تفصیلات ایس ڈی پی او دیپالپور نوشیرواں چانڈیو نے بتاتے ہوئے کہا کہ

حالیہ حالات کے تناظر میں یہ چونکہ انتہائی اہم واقعہ تھا اس لئے ڈی پی او ضلع اوکاڑہ حسن اسد علوی کی خصوصی ہدائت پر میں نے معاملے کی تحقیق و تفتیش کیلئے ایس ایچ او تھانہ حویلی لکھا کی سربراہی میں تین رکنی ٹیم تشکیل دی اور انہیں اس معمے کو جلد از جلد سلجھانے کا ٹاسک دیا جنہوں نے نسیم کھرل نامی شخص کی تلاش شروع کردی اس دوران مقتول کے بیٹوں کی حرکات نے پولیس کو مشکوک کردیا اور پولیس نے مقامی لوگوں سے مزید معلومات لینے کے بعد فوری طور پر نسیم کھرل کے بھائی مقصود اور اس کے دوسگے بیٹوں فخر اور اعظم کو فوری گرفتار کرلیا جبکہ مقصود کا بیٹا شمعون موقع سے فرار ہوگیا جس کو بھی گرفتار کرلیا گیا ہے انہوں نے بتایا کہ ملزمان نے دوران تفتیش رائے نسیم کو قتل کرنے کا اعتراف کرلیا۔
پولیس نے یہ بھی بتایا مقتول کے اپنی بہو کیساتھ ناجائز مراسم بھی تھے اور اس کا بیٹوں کیساتھ جائیداد کا جھگڑا بھی چل رہاتھا اسی رنج میں انہوں نے باپ کو ماردیا ایس ڈی پی او نے تھانہ کے ایس ایچ او چوہدری محمود الحسن کو یہ کیس دو دن میں نمٹانے پر شاباش دی اور انعام کا اعلان بھی کیا۔

مقامی لوگوں سے واردات بارے جب معلوم کیا گیا تو انہوں نے اوکاڑہ ڈائری کو بتایا کہ نسیم رتیکی کی ایک ڈھاری جسے محمدیاروالی ڈھاری سے جانا جاتا ہے کا رہائشی تھا اور اس کا پنے بیٹوں کیساتھ اکثر ہی جھگڑا رہتا تھا
جس کی بنیاد زمین کی تقسیم ہوا کرتی تھی اس دوران باپ بیٹوں میں اکثر اوقات بہت زیادہ تلخی ہوجاتی تھی یہی وجہ تھی کہ جب نسیم کے بیٹوں نے اپنے باپ کی گمشدگی کا ڈرامہ رچایا تو اکثر لوگ تو اسی وقت یہ سمجھ گئے تھے کہ یہ مکروہ کام انہوں نے خود ہی کیا ہے .
لوگوں نے بتایا کہ مقتول نسیم کی پانچ ایکٹر زمین تھی اور اس کے فخر،اعظم اور ظفرنام کے تین بیٹے تھے اور اصولی طور پر اسے یہ جائیداد تینوں بیٹوں میں برابر تقسیم کرنی چاہئے تھی مگر رائے نسیم نے اپنی تمام جائیداد اپنے بڑے بیٹے ظفر کے نام کردی تھی جس کا فخر اور اعظم کو بہت رنج تھاجس کا انجام آخر کار نسیم کے قتل کی صورت میں نکلا۔
یہاں پر موجود لوگوں نے ایک اور انکشاف بھی کیا کہ قتل ہونیوالے نسیم کھرل نے بھی دس سال قبل اپنے باپ کوجائیداد تنازعہ پر موت کے گھاٹ اتار اتھا اس طرح جو سلوک اس نے اپنے باپ کیساتھ کیا تھا اس کیساتھ بھی ویسا ہی ہوا اسی کو مکافات عمل کہتے ہیں۔
نسیم نے اپنے باپ کو کس طرح مارا تھا مقامی لوگوں نے اس کی تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ
نسیم کے باپ کی پچیس ایکٹر زمین تھی اور اس کے نسیم سمیت پانچ بیٹے تھے اس طرح سب کو پانچ پانچ ایکٹر زمین حصے میں آتی تھی مگر نسیم پانچ کی بجائے دس ایکڑ زمین چاہتا تھامگر اس کے والد نے اس ناانصافی سے انکار کردیا تھا جس پر ایک دن نسیم نے طیش میں آکر اسے گولیاں مارکر ختم کردیا ۔جس کے بعد نسیم کی ماں کی مدعیت میں مقدمہ چلا مگر چھ ماہ بعد ہی ماہ نے اسے معاف کردیا اور نسیم کو رہائی مل گئی تھی۔
باپ کو قتل کرنیوالے بیٹوں فخر اور اعظم سے جب پوچھا گیا کہ انہوں نے یہ سب کیسے کیا تو ان کا کہنا تھا کہ
ہمارے ابا نے ساری زمین ظفر کو دی جس پر اسے قتل کیا ہے انہوں نے بتایا کہ رائے نسیم چن پیر میلے پر گیا تو ہم نے پلاننگ کی کہ یہی اچھا موقع پر اسے مارنے کا کیوں کہ واپسی پر اسے ماردیں گے اور مشہور کردیں گے کہ وہ میلے پر گیا مگر واپس ہی نہیں آیا ۔منصوبے کے مطابق جب رائے نسیم گھر آرہاتھا تو رستے میں ہی ہم گھات لگائے بیٹھے تھے ہم نے اسے پکڑا اور گلاگھونٹ کر مارڈالا اور اس کی لاش ایک مکان میں چھ فٹ گڑھا کھود کر دبادی ۔انہوں نے بتایا کہ یہ جرم ہم دونوں بھائیوں نے ہی کیا ہے اس میں کوئی تیسرا شریک نہیں ہے ۔
فخر اور اعظم نے کہا کہ انہیں اپنے کئے پر افسوس ہے مگر ہم انتقام میں اندھے ہوگئے تھے کاش ہم ایسا نہ کرتے کیوں کہ ہماری بھی اولاد ہے جوکل کو ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی کرسکتی ہے ۔
انہوں نے مزید کیا کہا دیکھئے اس وڈیو میں