crime story in depalpur 542

جب زمین کے تنازعہ پر پانچ بھائیوں نے اپنے ہی دو سگے بھائیوں کو موت کے گھاٹ اتارڈالا

تحریر؛قاسم علی…
کہتے ہیں زن ،زر اور زمین انسان کی سب سے بڑی دشمن چیزیں ہوتی ہیں کیوں انسانی تاریخ میں ہونے والے زیادہ ترجرائم اور قتل و غارتگری کے پیچھے انہی تینوں میں سے کسی ایک کا ہاتھ ہوتا ہے چند روز قبل دیپالپور کے نواحی گاؤں املی موتی میں بھی ایسا ہی ایک سانحہ سامنے آیا جس سے انسانیت لرز اٹھی ۔واقعہ کچھ یوں تھا کہ پانچ بھائیوں نے مل کر اپنے ہی دو سگے بھائیوں کو گولیاں مارکر قتل کردیا تھا ۔

ملک محمد طارق ایس ایچ او تھانہ صدر دیپالپور ہیں انہوں نے بتایا کہ
یہ بیس مئی کا دن تھا جب پولیس سٹیشن صدردیپالپورکو ایک اطلاع موصول ہوئی جس میں درخواست گزار موسیٰ کی طرف سے موقف اختیار کیا گیا تھا کہ وہ سات بھائی ہیں جبکہ گزشتہ روز سے ان کے دو بھائی محمدیوسف اور مرتضیٰ غائب ہیں انہیں شبہ ہے کہ انہیں کسی نے اغوا کرلیا ہے برائے مہربانی اس کی تلاش میں پولیس مدد کرے جس کے بعد پولیس متحرک ہوگئی مگر تین دن تک ان کا کوئی سراغ نہ ملا تو اس معاملے نے ایک نیا اور ڈرامائی موڑ لیا جب غائب ہونیوالے یوسف کی بیوی کوثر پروین نے تھانہ صدردیپالپور میں آکر ایف آئی درج کروائی کہ اسے شک ہے کہ اس کے خاوند یوسف اور دیور مرتضیٰ کو دیگر پانچ بھائیوں نے قتل کیا ہے پولیس اس نئے رُخ پر تحقیقات کرنے کیلئے جب املی موتی پہنچی تو ملزمان کے گھروں پر پڑے ہوئے تالے بھی انہیں کافی حد تک مجرم ثابت کررہے تھے شائد انہیں بھی ا ندازہ ہوگیا تھا کہ اب ان کے گرد گھیرا تنگ ہورہاہے ۔
ان کے عزیز و اقارب بھی اس واقعے سے مکمل لاعلمی کا اظہار کررہے تھے مگرپولیس کی تحقیقاتی ٹیم نے مسلسل کوشش جاری رکھی اور ان بھائیوں کے گھر میں کام کرنیوالی ملازمہ کو ڈھونڈ نکالا جس نے دوران تفتیش پولیس کو بتایا کہ یوسف اور مرتضیٰ کو کسی نے اغوا نہیں کیا بلکہ ان کے اپنے ہی بھائیوں نے انہیں ڈیرے پر بلاکرقتل کیا ہے اور پھر اپنی ہی زمین میں گڑھا کھود کر انہیں دبا دیا ہے اس انکشاف اور کچھ ہی تلاش کے بعد مرتضیٰ اور یوسف کی نعشیں پولیس نے ڈھونڈ نکالیں جنہیں ضروری کاروائی کے بعد دفن کردیا گیا۔
کوثرپروین جو یوسف کی بیوہ ہے نے بتایا کہ
کچھ عرصے سے یوسف اور دیور مرتضیٰ کا دیگر پانچ بھائیوں کے ساتھ زمین کا تنازعہ چل رہاتھاان بھائیوں عیسیٰ،موسیٰ،اسرار،انتظار اور مصطفیٰ کا کہنا تھا کہ انہیں زمین میں سے حصہ دیاجائے جبکہ یوسف کا کہنا تھا کہ اس زمین پر بنک لون لیا گیا ہے جو ہم مل کر ادا کرلیتے ہیں اس کے بعد زمین بانٹ لیں گے مگر دیگر بھائی چاہتے تھے کہ یوسف یہ قرض خود اتارے ہم اس میں کوئی رقم نہیں ڈالیں گے قتل کی رات یوسف اپنے گھر میں موجود تھا اور میری موجودگی میں ہی موسیٰ کا فون آیا کہ ڈیرے پر آئے تاکہ بنک قرض والا معاملہ پر بات کی جائے جس پر وہ اور مرتضیٰ جو ابھی کنوارہ تھاچلے گئے لیکن کافی دیر گزرنے کے بعد بھی نہ آئے تو انہیں فکر ہوئی پتا کروایا تو انہوں نے کہا کہ ہمیں تو نہیں پتہ کہ وہ کہاں گئے اور اگلے دن انہوں نے تھانے میں ایف آئی آر بھی درج کروائی کہ کسی نے ان کے بھائی کو اغوا کرلیا ہے مگر مجھے شروع سے ہی خدشہ تھا کہ معاملہ ایسا نہیں جیسا بتایا جارہاہے مگر میں بے بس بھی تھی اور خوفزدہ بھی کہیں مجھے بھی نہ مارڈالیں لیکن چار روز بعد میں نے ہمت کرکے پولیس سٹیشن جاکر اپنے خدشے کا اظہار کردیا جس پر پولیس نے اس سرے پر تحقیق کی اور میرا خدشہ سچ ثابت ہوا تاہم اب وہ غائب ہیں مگر کب تک چھپیں گے آخر انہیں انصاف کے کٹہرے میں آنا ہوگا ۔پولیس اس سلسلے میں ہمارے ساتھ تعاون کررہی ہے۔
اہل محلہ نے بتایا کہ
یہ سات بھائی تھے اورمحمدیوسف ان میں سب سے بڑا تھا جس نے 2003ء میں باپ کی وفات کے بعد سب کی پرورش اولاد کی طرح کی چونکہ زیادہ مالداری نہیں تھی اس لئے تین ایکڑ زمین پر بنک سے قرض لے کر ان کی شادیاں بھی کیں اور دیگر معاشی معاملات بھی چلاتا رہامرتضیٰ ابھی کنوارہ تھا اور یوسف کیساتھ ہی رہتا تھا دوماہ سے باقی پانچوں بھائیوں نے یوسف سے مطالبہ شروع کیا تھا کہ انہیں زمین میں سے حصہ دیاجائے مگر یوسف کا یہ موقف تھا کہ جس طرح ہماری زمین مشترکہ اسی طرح میں قرض بھی لے کر اجتماعی طور پر خرچ کیا ہے پہلے ہم مل کر یہ قرض اتارلیں پھر زمین بانٹ لیں گے اس موقف میں مرتضیٰ بھی یوسف کا حامی تھا مگر دوسرے بھائیوں کے سر پر خون سوار تھا وہ کہتے تھے کہ قرض تم نے للیا تم ہی اداکرو ہم اس کے ذمہ دار نہ ہیں اس معاملے پر کئی بار جھگڑا ہوا اور پنچائت بھی ہوتی رہی مگر دونوں فریق اپنی اپنی بات کو ٹھیک سمجھتے تھے جس کا نتیجہ اس اندوہناک حادثے کی صورت میں نکلا۔
اہل محلہ نے کہا کہ یوسف اور مرتضیٰ کیساتھ ظلم ہوا ہے اور ظالموں کو قانون کے مطابق سخت سزا ملنی چاہئے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں