رپورٹ:اوکاڑہ ڈائری
بھکاری کا لفظ ذہن میں آتے ہی ایک ایسے ضرورتمند اور غریب شخص کا خاکہ ذہن میں آتا ہے جو لوگوں سے ایک ایک روپیہ مانگ کر اپنا گزربسر کرتا ہے لیکن جڑانوالہ میں ایک حیرت انگیز واقعہ پیش آیا ہے جس نے کمرہ عدالت تو کیا ہر ایک کو حیران کر دیا ہے ۔
واقعہ کچھ یوں ہے کہ جڑانوالہ میں ایک بھکاری نے عدالت میں پولیس پر الزام عائد کیا کہ تھانیدار اور اس کے ساتھیوں نے مجھ سے سات لاکھ روپے چھینے ہیں جس پر عدالت نے پولیس افسران کو عدالت میں طلب کر لیا اور ان سے بھکاری کے الزام اور سات لاکھ روپے سے متعلق جواب طلبی کی ۔مگر پولیس افسران نے اس الزام کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اتنے پیسے اس بھکاری کے پاس بھلا کیسے آسکتے ہیں سات لاکھ روپے بہت بڑی رقم ہے۔
لیکن بھکاری اپنی بات پر اڑا رہا اور اصرار کیا کہ تھانیدار اور اس کے ساتھی مجھ سے پیسے چھین کر فرار ہوگئے اور مجھ غریب کا ذرا خیال نہ کیا ۔پولیس افسران کی بات میں بھی وزن تھا کہ ایک مانگنے والے کے پاس اتنے پیسے کیسے ہو سکتے ہیں جبکہ فقیر کی آہ و بکا بھی عدالت کے درو دیوار ہلا رہی تھی ۔اتنے میں جج صاحب نے بھکاری سے پوچھا کہ تمھارے پاس اتنے پیسے آئے کہاں سے ؟ کیا تمھیں نہیں پتہ کہ تم ایک فقیر ہو اور الزام قانون کے محافظوں پر لگا رہے ہو ۔پولیس والے تو عوام کی حفاظت کرتے ہیں اور تم کہہ رہے ہو کہ پولیس والوں نے تمھیں لوٹا ہے اپنے الزام کا کوئی ثبوت دو۔

جج صاحب کے سوال کے جواب میں بھکاری نے جو کچھ کیا وہ انتہائی حیرت انگیز تھا ۔اس نے اچانک اپنے بوسیدہ تھیلے میں ہاتھ ڈالا اور کچھ کاغذات معزز جج کے سامنے پیش کر دئیے جنہیں پڑھ کر جج، عدالت میں موجود وکلا اورپولیس افسران کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں کیوںکہ یہ کاغذات اس بھکاری کے نجی بنکوں میں اکاؤنٹس کی تفصیلات تھیں جن میں تین کروڑ روپے پڑے تھے ۔جب سارے لوگ حیرت میں گم تھے تب فقیر پھر گویا ہوا ۔جناب میں گزشتہ پچیس برس سے بھیک مانگ رہا ہوں اور اپنے تمام پیسے بنک میں جمع کرواتا رہا ہوں یہی نہیں میری مختلف علاقوں میں پراپرٹی بھی ہے اور اب بھی میں سات لاکھ روپے سے پلاٹ کی بکنگ کیلئے جا رہا تھا کہ ان پولیس والوں نے مجھ سے چھین لئے مجھے انصاف دیا جائے جس پر عدالت نے مظفر نامی بھکاری کے سات لاکھ روپے لاکھ ہڑپ کرنے کے الزام پر تھانیدار اور اہلکاران کے خلاف مقدمے کا حکم دے دیا۔