آج ہر پاکستانی یہ پوچھتا نظرآتا ہے کہ ہم دنیا سے پیچھے کیوں ہیں ؟اس اہم سوال کے ویسے تو کئی جواب ہو سکتے ہیں مگر اس کا ایک جواب یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں سزا و جزا کا نظام انتہائی ناقص ہے بلکہ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ قانون و آئین طاقتور اور بااثر افرادکیلئے موم کی ناک کی حیثیت رکھتا ہے جو جب چاہیں جس طرف چاہیں اس کو موڑ لیتے ہیں۔
انگریزی کی ایک کہاوت ہے جو ایک روپیہ چرائے وہ چور ہے اور جو ایک لاکھ روپیہ چرائے وہ فنکار ہے اوربدقسمتی سے میرے پیارے پاکستان میں ایسے فنکاروں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ضلع اوکاڑہ میں حال ہی میں بطور سی ای او ہیلتھ چارج سنبھالنے والے ڈاکٹر اختر حسین بھی ایک ایسے ہی فنکا ر ہیں ۔
ڈاکٹر اخترحسین مہار چار برس قبل اکتیس مارچ دو ہزار اٹھارہ کو جھنگ میں درجہ چہارم کی سینکڑوں غیرقانونی بھرتیوں اور دیگر کئی محکمانہ بے ضابطگیوںکے ملزم ہیں ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈاکٹراخترحسین مہار نے بھرتی کے بنیادی قانونی تقاضوں کو بھی مدنظر نہیں رکھا اور ایسے افراد کو بھی نوکریوں سے نوازدیاجن کیلئے میرٹ کا خیال رکھنا تو دور کی بات انہوں نے سرے سے درخواستیں ہی نہیں دی تھیں۔اس بدترین بدانتظامی پر میڈیا رپورٹس سامنے آئیں تو اس کرپٹ افسر کے خلاف انکوائری ہوئی جس میں ڈاکٹراخترحسین مہار پر لگائے گئے الزامات ثابت ہوگئے اور محکمہ اینٹی کرپشن نے ان کے خلاف مقدمہ درج کیا ۔
اب اس کے بعد ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ڈاکٹر اخترحسین مہار سے اس کرپشن کا حساب لیا جاتا اور ان کو سخت سزا دی جاتی مگر اس کے برعکس صاحب بہادر کو نہ صرف سی ای او ہیلتھ اوکاڑہ کے منصب پر تعینات کر دیا گیا بلکہ مستقبل قریب میں ضلع اوکاڑہ میں قائم ہونیوالے میڈیکل کالج کا پروجیکٹ مینجر بھی انہی صاحب کو بنایا گیا ہے۔
یہ بہت ممکن تھا کہ کرپشن کے دیگر بیشمار کیسز کی طرح یہ معاملہ بھی منظر عام پر نہ آتا اگرناصر خان وٹو اس ایشو پر مضبوط آواز نہ اٹھاتے۔ناصر خان وٹو دیپالپور بار سے تعلق رکھنے والے ایک معروف ایڈووکیٹ ہیں اوکاڑہ ڈائری سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ضلع اوکاڑہ کی قسمت پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے کہ ایک ایسے بندے کوسی ای او کی اہم ترین پوسٹ پر بٹھا دیا گیا ہے جس کو دراصل جیل میں ہونا چاہئے تھا۔انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر اختر حسین کی پولیو مہم کی مد میں لاکھوں روپے فنڈزکھا چکے ہیں، سینکڑوں غیرقانونی اور بوگس بھرتیاں کرچکے ہیں اور انکوائری میں بھی ان کا جرم ثابت ہو چکا ہے ۔یہی نہیں موصوف ہمہ وقت کرپشن کرتے رہتے ہیں ،ہر روز ہر تبادلے پر فکس شدہ رشوت وصول کرتے ہیں۔ناصرخان وٹو ایڈووکیٹ نے انکشاف کیا کہ موصوف کا پیٹ اس کرپشن سے نہیں بھرا تو انہوں نے ضلع اوکاڑہ میں چلنے والی ہیلتھ کیمپینز کیلئے ملنے والے بجٹ پر بھی ہاتھ صاف کرنا شروع کردیا اور انہیں موصولہ اطلاعات کے مطابق ہیلتھ کیمپینز کیلئے ملنے والی موٹرسائیکلیں تک فروخت کر کے کھا چکے ہیں۔ میاں ناصر خان وٹو ایڈووکیٹ نے سیکرٹری ہیلتھ علی جان اور ڈپٹی کمشنر اوکاڑہ کو خطوط کے ذریعے اس ساری صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے سوال کیا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ایک ثابت شدہ کرپٹ شخص کو سی ای او ہیلتھ جیسی اہم ترین پوسٹ پر تعینات کر دیا گیا ہے ۔
اس سارے تناظر میں اس سسٹم کے بارے میںکچھ سوال بہت زیادہ اہمیت اختیار کر گئے ہیں کہ اگر کسی افسر کے خلاف الزامات لگیں اور چار چار سال جاری رہنے والی تحقیقات کے بعد وہ الزامات سچ ثابت ہو جائیں تو کیا اس کے بعد اس شخص کیساتھ بطور مجرم سلوک ہونا چاہئے یا اسے مزید بہتر اور بڑی ذمہ داریاں دینی چاہئیں اور دوسری بات یہ کہ اگر جرم ثابت ہونے پر بھی کسی کو سزا نہیں ملنی تو پھر تمام تر تحقیقاتی ادارے کر کے کرپشن کی عام اجازت کیوں نہیں دے دی جاتی ؟