تحریر:راشدستاروٹو…
پنجاب اسمبلی کا موجودہ حلقہ 185 شروع سے حجرہ شاہ مقیم کے گیلانی خاندان کا قلعہ رہا ہے 1988 میں یہ حلقہ پی پی 158 تھا 1988 کے الیکشن میں سید افضال علی شاہ نے اسلامی جمہوری اتحاد کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑا اور تیس ہزار سے زائد ووٹ حاصل کرکے فتح حاصل کی ان کے مقابلہ میں پاکستان پیپلزپارٹی کے سید شاہ نواز کرمانی نے پندرہ ہزار ووٹ حاصل کیے اور دوسرے نمبر پر رہے اس وقت میاں منظور احمد وٹو میاں محمد یسین وٹو اور سید افضال علی شاہ گیلانی اکٹھے تھے اور این اے 113 میں میاں منظور احمد وٹو اور میاں عطامحمد مانیکا کا مقابلہ تھا اس وقت میرے بزرگ میاں عطاء محمد مانیکا کے ساتھ تھے میری عمر اس وقت سات سال تھی آج بھی میاں عطاء محمد مانیکا کی پجارو گاڑی جو کہ اس وقت کے حساب سے بہت مہنگی اور جدید گاڑی تھی میری آنکھوں کے سامنے ہے باقی کسی مقامی سیاستدان کے پاس اس وقت پجارو نہیں تھی ۔ میاں منظور احمد وٹو میاں عطاء محمد مانیکا سے چار ہزار کی برتری سے جیت گئے میاں صاحب نے انچاس ہزار اور میاں عطاء محمد نے پینتالیس ہزار ووٹ حاصل کیے حویلی لکھا اور بصیرپور والے صوبائی حلقہ پی پی 159 میں میں بھی میاں منظور احمد وٹو نے پیپلزپارٹی کے میاں امداد حسین داریکا کو شکست دی حالانکہ میاں امداد حسین صرف پانچ سو ووٹوں سے ہارے تھے لیکن ہار اور جیت تو ایک ووٹ سے بھی ہوجاتی ہے چونکہ میاں منظور احمد وٹو دو حلقوں سے جیتے تھے اس لیے انہوں نے قومی اسمبلی کا حلقہ چھوڑدیا اور اس میاں محمد یسین وٹو میاں منظور احمد وٹو اور سید افضال شاہ کے متفقہ امیدوار کی حیثیت سے ضمنی الیکشن کے میدان میں اترے ان کے مقابلہ میں پھر میاں عطاء محمد مانیکا نے الیکشن لڑا چونکہ مرکز میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت بن چکی تھی تو پیپلزپارٹی نے اپنے امیدوار کو ہر صورت جتوانے کے لیے بھرپور فنڈز دییے ہمارے گاوں کلہر مہمند اور نزدیکی گاوں عمر سکھا لادھوکا اور آس پاس کی آبادیوں کو اس وقت میاں عطاء محمد مانیکا نے بجلی جیسی نعمت فراہم کی ہم آج بھی میاں عطاء محمد مانیکا کے مشکور ہیں رسول پور اسٹیشن بھی اس وقت میاں عطاء محمد مانیکا نے بنوایا جو اہل علاقہ کے لیے ایک نعمت سے کم نہ تھا میاں عطاء محمد مانیکا ضمنی الیکشن جیت گئے اور میاں محمد یسین کو شکست ہوئی ۔
اس کے بعد عام الیکشن 1990 میں ہوئے اس الیکشن میں بھی سید افضال علی شاہ میاں محمد یسین وٹو اور میاں منظور احمد وٹو کا سیاسی اتحاد اسلامی جمہوری اتحاد کے پلیٹ فارم پر قائم رہا میاں محمد یسین وٹو نے این اے 113 سید افضال علی شاہ گیلانی نے پی پی 158 اور میاں منظور احمد وٹو نے پی پی 159 سے الیکشن لڑا ۔ ان کے روایتی حریف میاں عطاء محمد مانیکا نے این اے 113سے پاکستان ڈیموکریٹک الائنس کے پلیٹ فارم سے اس اتحاد کا مقابلہ کیا.تاہم میاں محمد یسین بھاری اکثریت سے این اے کا الیکشن جیت گئے پی پی 159 میں میاں منظور وٹو اور پی پی 158 سے سید افضال علی شاہ فاتح رہے سید افضال علی شاہ کے مقابلہ میں فخر منڈی احمد آباد مرزا احمد بیگ صاحب مرحوم نے آزاد حیثیت سے الیکشن لڑا مرزا احمد بیگ مرحوم نے تن تنہا اس وقت کی تمام بڑی سیاسی قوتوں کے خلاف میدان میں اتر کر اور چودہ ہزار سے زائد ووٹ حاصل کرکے ایک تاریخ رقم کردی۔
1988 اور 1990 کے الیکشن میں حصہ لینے والا اسلامی جمہوری اتحاد جس میں پاکستام مسلم لیگ اور جماعت اسلامی کے علاوہ دوسری دائیں بازو کی جماعتیں شامل تھیں.
بے نظیر بھٹو کو اس اتحاد سے بہت ٹف ٹائم مل رہا تھا اس لیے محترمہ نے اسے توڑنے کی کوششیں شروع کیں اور اس مقصد کے لیے جوڑ توڑ کے ماہر میاں منظور وٹو کو استعمال کیا اور میاں صاحب نے اسلامی جمہوری اتحاد کا شیرازہ بکھیر دیا انہوں نے اس اتحاد کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ کے بھی ٹکڑے کردییے مسلم لیگ جونیجو کے نام سے ایک الگ پارٹی معرض وجود میں آئی اس طرح باقی والی مسلم لیگ مسلم لیگ نواز بن گئی اور اس طرح ہمارے حلقہ میں بھی پرانے حلیف حریف بن گئے میاں محمد یسین وٹو اور سید افضال علی شاہ گیلانی مسلم لیگ نواز کے حصہ میں آئے اور میاں منظور وٹو صاحب جونیجو لیگ کے سرکردہ راہنما بن گئے جولائی میں یہ لیگیں الگ ہوئیں اور اکتوبر 1993 میں عام انتخابات کا انعقاد ہوا اب ان انتخابات میں این اے 113 میں دونوں استاد شاگرد یعنی میاں محمد یسین وٹو اور میاں منظور وٹو مدمقابل ہوئے پی پی 158 میں سید افضال علی شاہ کے خلاف بھی میدان میں خود اترے اور پی پی 159 حویلی لکھا سے اپنے پرانے حریف میاں عطاء محمد مانیکا کو اپنی ونگ کے طور پر سیاسی اکھاڑے میں اتارا میاں محمد یسین نے اس حلقہ میں میاں امداد حسین داریکا کو اپنی ونگ بنایا میاں منظور احمد وٹو قومی اور صوبائی دونوں حلقوں سے شکست کھاگئے اور میاں عطاء محمد میاں امداد حسین کے مقابلہ میں جیت گئے اس الیکشن میں میاں منظور احمد وٹو تاندلیانوالہ سے صوبائی حلقہ کا الیکشن لڑے اور وہاں سے جیت گئے ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے پاس صوبائی حکومت بنانے کے لیے سادہ اکثریت نہ تھی جونیجو لیگ کے درجن بھر ممبران اسمبلی نے فیصلہ کن کردار ادا کیا اور پیپلزپارٹی اور جونیجو لیگ کی مشترکہ صوبائی حکومت بنی جس میں وزارت اعلی میاں منظور وٹو کے حصہ میں آئی یہ بعد کی بات ہے کہ اڑھائی سال بعد مرکزی اور صوبائی حکومت کی لڑائی کی وجہ سے نے وٹو صاحب کو ہٹا کر عارف نکئی کو وزیر اعلی بنادیا گیا
1997 کے الیکشن میں بھی میاں منظور وٹو قومی اسمبلی کے حلقہ میں میاں یسین وٹو سے کانٹے دار مقابلہ کے بعد شکست کھاگئے پی پی 159 میں ان کے بڑے بیٹے معظم جہانزیب نے میاں یسین وٹو کو شکست دی اور ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے پی پی 158 میں سید افضال علی شاہ ہر بار کی طرح بھاری اکثریت سے فاتح رہے اور میاں منظور احمد وٹو کے حمایت یافتہ امیدوار سید گلزارسبطین شاہ بھاری مارجن سے شکست کھاگئے
1999میں پرویزمشرف نے ٹیک اوور کرکے ن لیگ کی دوتہائی اکثریت والی حکومت کو چلتا کیا سیاستدانوں پر مقدمات چلے اور میاں منظور وٹو بھی مقدمات کیوجہ سے جیل چلے گئے تقریباً پانچ سال جیل میں رہے 2002 کے عام انتخابات کے قریب جیل۔سے رہا ہوئے اس الیکشن میں حلقہ بندیاں تبدیل ہوگئیں حجرہ شاہ مقیم ہمارے قومی اور صوبائی حلقہ سے نکل گیا اور ہمارے حلقہ کو این اے 147 کا ٹائٹل ملا حویلی لکھا والے صوبائی حلقہ کو پی پی 193 اور منڈی احمد آباد اور بصیرپور والے حلقہ کو پی پی 188 کہا گیا قومی اسمبلی کے حلقہ سے میاں معین وٹو ق لیگ کے ٹکٹ سے قومی اسمبلی کے امیدوار بنے اور ان کی ایک طرف دیوان اخلاق اور دوسری طرف سید رضاعلی گیلانی بطور ونگ میدان میں اترے.
میاں منظور وٹو جو خود اس وقت الیکشن نہیں لڑ سکتے تھے انہوں نے اپنی بیٹی روبینہ شاہین کو قومی اسمبلی کے لیے اپنے قریبی عزیز میاں نسیم احمد وٹو پی پی 193 میں میدان میں اتارا پی پی 188 کے لیے انہوں نے سوچ بچار شروع کی اور نتیجتاً چوہدری افتخار حسین چھچھر کو الیکشن لڑوانے کا فیصلہ کیا حالانکہ چوہدری افتخار حسین چھچھر اس وقت ایک غیر معروف شخصیت تھےاور اسی وجہ سے میاں معین وٹو کو یقین تھا کہ وہ آسانی سے جیت جائیں گے لیکن لوگوں نے روبینہ کو بیٹی سمجھ کر خوب ووٹ دییے محترمہ روبینہ شاہین غیر متوقع طور پر بیس ہزار کی برتری سے الیکشن جیت گئیں ادھر دیوان اخلاق نے میاں نسیم کو شکست دی اور چوہدری افتخار حسین چھچھر چار سو ووٹوں کی برتری سے سیدرضاعلی سے جیت گئے اس الیکشن میں ڈاکٹر میاں قاسم علی وٹو کے صاحبزادے میاں فیاض قاسم وٹو نے متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے پی پی 188 کا الیکشن لڑا اور اپنی برادری کی حمایت کے بغیر چودہ ہزار ووٹ حاصل کیے.
2008 کےعام انتخابات کا بگل بجا میاں معین وٹو اس سے پہلے ضلع ناظم نہ بنائے جانے کی وجہ سے پیر صاحبان سے دور ہوچکے تھے اور ان کے درمیان شدید اختلافات پیدا ہوچکے تھے ان کا اس الیکشن میں اتحاد بہت مشکل تھا میاں منظور وٹو جو کہ پچھلے گیارہ سال سے اسمبلی سے باہر تھے وہ کوئی رسک لینا نہیں چاہتے تھے اس لیے اب کی بار انہوں نے میاں معین وٹو کو پی پی 193 کا حلقہ دے کر اپنے ساتھ ملا لیا این اے 147 اور این اے 146 میں میاں صاحب خود میدان میں اترے پی پی 188 میں روبینہ شاہین کو امیدوار بنایا مقابلہ میں سید رضاعلی گیلانی این اے پر آئے اور پی پی 193 میں دیوان اخلاق احمد اور پی پی 188 میں میاں محمد فیاض قاسم ق لیگ کے ٹکٹ پر میدان میں اترے چوہدری افتخار حسین چھچھر نے آزاد حیثیت میں طبع آزمائی کی الیکشن کی کیمپین کے دوران محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کا افسوسناک سانحہ پیش آیا جس کا الزام پرویز مشرف اور ق لیگ پر آیا جس سے ق لیگ کو عوام کی طرف سے قاتل لیگ کا لقب ملا اور اس وجہ سے ق لیگ کی کشتی ڈوب گئی ق لیگ کے امیدواران کو توقع کےمطابق ووٹ نہ ملے ہمارے حلقہ میں بھی ق لیگ کے امیدواران کو عوامی ردعمل کا سامنا کرنا پڑا اورالیکشن میں میاں منظور وٹو دونوں قومی اسمبلی کی نشستوں سے فاتح رہے میاں معین وٹو اور روبینہ شاہین وٹوبھی ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہونے میںکامیاب رہے.سید رضاعلی گیلانی این اے 147 سے ہار گئے دیوان اخلاق احمد اور میاں فیاض قاسم کو بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا افتخار چھچھر صاحب بھی ہار گئے ۔
اور یوں میاں منظور احمد وٹو گیارہ سال بعد اسمبلی پہنچنے میں کامیاب ہوئے میاں صاحب نے این۔اے 147 کی نشست خالی کی اور ضمنی الیکشن میں ان کے صاحبزادےمیاں خرم جہانگیر وٹو ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے 2008 کے انتخابات میں محترمہ کی شہادت کی وجہ سے پیپلزپارٹی کو عوام کی ہمدردی کا ووٹ ملا اور پیپلزپارٹی حکومت بنانے کی پوزیشن میں آگئی.ایسے میں میاں منظوروٹو نے اقتدار والی پارٹی کے ساتھ ہاتھ ملایا اور وفاقی وزارت بھی حاصل کرلی.
2013 کے عام انتخابات میں میاں منظور وٹو نے پیپلزپارٹی کے پلیٹ فارم سے دو قومی اور تین صوبائی حلقوں پر اپنے ہی خاندان کے افراد کو میدان میں اتارا اور پانچوں حلقوں میں بری طرح شکست کھائی.
میاں معین وٹو قومی اور صوبائی حلقہ میں کامیاب رہے اور پہ پی 188 میں چوہدری افتخار حسین چھچھر کامیاب رہے اس الیکشن میں سید افضال علی شاہ گیلانی کے خاندان نے براہ راست حصہ نہ لیا اور پی پی 188 سے چوہدری افتخار حسین چھچھر کو سپورٹ کیا میاں معین وٹو نے صوبائی حلقہ چھوڑا اس پر ضمنی الیکشن ہوا نور الامین ناصر وٹو میاں معین کے نامزد امیدوار تھے حکومت بھی ن لیگ کی تھی اور بڑے بڑے ڈیرہ دار اور سیاسی وڈیرے نورالامین کے ساتھ مل گئے سابقہ ایم پی اے دیوان اخلاق اور پی ٹی آئی کے سابقہ امیدوار میاں جاوید مہار نے بھی نورالامین کا ساتھ دیا ٹھکرکا خاندان اپنے تئیں جیت چکے تھے الیکشن کو تو بس رسمی کاروائی سمجھ رہے تھے لیکن اللہ تعالی کو کچھ اور منظور تھا اس الیکشن میں میاں خرم جہانگیر واضح برتری سے جیت گئے اور سارے اندازے دھرے کے دھرے رہ گئے اور علاقہ میں کچھ حد تک طاقت کا توازن قائم ہوا.
اب الیکشن۔2018 کی تاریخ کا۔اعلان ہوچکا آج سے تین ہفتے بعد الیکشن ہے اور اس الیکشن کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ پچیس سال پرانے سخت ترین حریف اپنی اپنی ضرورت کے تحت ایک بار پھر اکھٹے ہونے جارہے ہیں۔
پینںتیس سالہ سیاست پر نظر دوڑایے اور دیکھیے کہ کون لوگ ہیں جو ہماری آنکھوں میں دھول جھونک کر باریاں لے رہے ہیں۔کیا ابھی وقت نہیں آیا ان سے جان چھڑانے کا؟ اب نہیں تو کب ِ؟ فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے.
