javed iqbal was not crona patient 426

دیپالپور،انتظامی نا اہلی نے آٹھ بچوں کے سرسے باپ کا سایہ چھین لیا

تحریر:قاسم علی

ایک ہفتہ قبل دیپالپور ضیالدین کالونی کے رہائشی جاویداقبال کے کرونا کے باعث جاں بحق ہونے کی اطلاع سامنے آئی تو شہر میں خوف و ہراس ،پریشانی اور غم کی کیفیت طاری ہوگئی کیوں کہ جاوید اقبال ایک جانی پہچانی شخصیت تھے ہسپتال انتظامیہ کے مطابق چونکہ جاویداقبال کی موت کرونا وائرس کے باعث ہوئی تھی اسی لئے فوراََ بعد انتظامی مشینری حرکت میں آئی کرونا ایس او پیز کے مطابق ان کو دیپالپور لایا گیا اس دوران ان کی فیملی سمیت کسی کو بھی ڈیڈ باڈی کے قریب تک نہیں جانے دیا گیا اور رات کے اندھیرے میں بلدیہ اہلکاروں نے ان کی تجہیز و تکفین کی ۔

بات اگریہیں تک رہتی تو شائد قابل برداشت ہوتی کہ یہ سب کچھ کرونا ایس او پیزکے مطابق کیا گیا مگر افسوس اور ستم تو یہ ہے کہ یہ سارا سلوک اس شخص کیساتھ کیا گیا جس کو کرونا تھا ہی نہیں اور یہ بات جاوید کی تدفین کے ایک روز بعد منظرعام پر آنیوالی اس کی کرونا رپورٹ نے ثابت بھی کردی ۔ اب اس رپورٹ کے منظرعام پر آنے کے بعد مرحوم کے لواحقین کے دل پر کیا گزری ہوگی اس کا اندازہ نہ میں اور آپ کرسکتے ہیں اور نہ ہی وہ مسیحاؤں کے نام پر دھبہ بننے والے بے رحم اور ظالم لوگ جو اس مقدس فیلڈ کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں ۔ ذرا ایک لمحے کو سوچیں کہ اس وقت کتنا انتہائی تکلیف دہ ماحول ہوگا جب مرحوم کے اہل خانہ بوڑھے والدین کو اپنے لخت جگر اوراس کی زندگی بھر کی ہمسفر کو آخری دیداربھی نہ کرنے دیا گیا اورسات بیٹیوں و ایک پانچ سالہ بچہ کو اپنے پیارے بابا سے لپٹ کر رونے کا موقع بھی نہ ملا ۔

جاوید اقبال کے عزیز امجد شاہ دین میرے اچھے دوست ہیں انہوں نے دوران گفتگو اصل حقائق سے پردہ اٹھایا تو انتہائی تکلیف دہ انکشافات سامنے آئے جو بدترین انتظامی غفلت کا ثبوت بھی تھے اور نام نہاد مسیحاؤں کی بے حسی کی داستان بھی اس میں شامل تھی ۔ امجدشاہ دین نے بتایا کہ جاویدبھائی نے اپنے طور پر سٹیم لی جس سے ان کی سانس کی نالی میں انفیکشن اور بخار ہوگیاجس کی ٹریٹمنٹ کیلئے ہم انہیں اوکاڑہ لے گئے مگر ڈاکٹرز نے جیسے ہی یہ دیکھا کہ مریض کو کھانسی اور سانس لینے میں دشواری کا مسئلہ ہے تو انہوں نے بغیراسے چیک کرنے اور آکیسیجن دینے کی بجائے آئسولیشن روم میں بھیج کر باہر سے کنڈی لگا دی اور یہی سلوک ہمارے ساتھ بھی کیا گیایہ ہمارے لئے انتہائی اذیت ناک صورتحال تھی کہ ہمارا مریض موت و حیات کی کشمکش میں ہمارے سامنے کمرے میں تڑپ رہاتھا اور ہم دوسرے کمرے میں قید تھے ۔

یہ صورتحال تین گھنٹے جاری رہی ۔ اس کے بعد ڈاکٹرز وہاں آئے اور جاوید کا کرونا ٹیسٹ کیا اور چلے گئے اور پھر کچھ دیر بعد ہ میں بتایا گیا کہ آپ کا مریض انتقال کرچکا ہے ۔ اور اس کی تدفین اب حکومت کے طے شدہ ایس او پیز کے مطابق کی جائے گی ۔ ہم نے ان سے گزارش کی جب تک کرونا ٹیسٹ کی حتمی رپورٹ نہیں آجاتی تب تک ان کی تدفین کو ملتوی کردیں اگر ٹیسٹ پازیٹوآئے تو آپ کرونا ایس او پیز کوضرور فالو کریں ہ میں اعتراض نہیں ہوگا اور اگر ٹیسٹ منفی آئے تو ہم اپنے پیارے کی آخری رسومات تو باوقار انداز میں کرسکیں گے لیکن انتظامیہ نے ہماری ایک نہ سنی اور حکم دیا کہ آپ کا صرف ایک بندہ ہمارے ساتھ جائے گا اور ہم خوداس کی تدفین کریں گے ۔

امجدشاہ دین نے انتظامی نا اہلی سے پردہ اٹھاتے ہوئے یہ بھی بتایا کہ تدفین کرنے والوں کے پاس جنازہ پڑھانے والا کوئی مولوی بھی نہیں تھا ۔ وہ جنازہ بھی لواحقین میں سے موجود واحد شخص جاوید کے بھائی نے پڑھایا ۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جب انہیں ہسپتال میں کورنٹائن کیا گیا تو وہاں پر کوئی سہولت نہیں تھی ہ میں یوں لگ رہا تھا جیسے ہ میں کسی بڑے جرم کی سزا کے طور پر کسی جنگل میں بھیج دیا گیا ہو ۔ افطاری کا وقت قریب تھا مگر کوئی سامان ہ میں فراہم نہ کیا گیا آخر ایک ملازم کو منت سماجت کرکے جیب سے پیسے دے کر بھیجا جو رات گئے ہمارے لئے کچھ کھانے کا سامان لایا جو کھاکر ہم نے گزارا کیا ۔ یادرہے ایک ماہ قبل بھی ساوَتھ سٹی ہسپتال اوکاڑہ میں ایک ملازم کی وڈیو سامنے آئی تھی جس میں اس نے ہسپتال میں کرونا کے مریضوں کیلئے سہولیات کے فقدان کا ذکرکیا تھا ۔

جاوید اقبال کا کیس اپنی جگہ دردناک تو ہے ہی ساتھ میں اس نے مقامی انتظامی کارکردگی کا پول بھی کھولتے ہوئے کئی سوالوں کو جنم دیا ہے جن میں سے ایک یہ ہے کہ اگر حکومت کرونا کے مریضوں کو کوئی سہولت نہیں دے سکتی تو پھر کرونا کے نام پر قرنطینہ سنٹرز کیلئے جاری ہونیوالا فنڈ کدھر جارہا ہے اور اس کیساتھ یہ بھی کہ کرونا کے مشتبہ مریضوں کو انتقال کی صورت میں اس وقت سردخانے میں نہیں رکھا جانا چاہئے جب تک ان کی کنفرم رپورٹ نہ آجائے ۔ تاکہ رپورٹ نیگیٹو آنے پر اس کے لواحقین اپنے پیارے کی مذہبی و معاشرتی روایات کیساتھ تدفین کرسکیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ حکومت کو کرونا وائرس کی وجہ سے جاں بحق ہونیوالے تمام افراد کیلئے ایک مناسب امدادی پیکج دینا چاہئے تاکہ وہ مرحوم کے بعداس کی فیملی اپنی زندگی کے دھارے کوبہتر طور پر گزار سکے ویسے بھی ریاست کی اولین ذمہ داری بھی ہے اور اس سے بڑھ کر اسلامی تعلیمات و اخلاقیات کا تقاضا بھی ۔

یہ سب ماجرا آپ وڈیو کی صورت میں دیکھنے کیلئے نیچے دی گئی فوٹو پر کلک کریں۔

javed iqbal depalpur doctors ki la parwahi ka shikar Okara Diary

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں