تحریر:قاسم علی
تندرست جسم بلاشبہ اللہ کی بڑی نعمت ہے لیکن جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ یہ دنیا دارالامتحان ہے جہاں اللہ کبھی نعمتیں دے کر آزماتا ہے تو کبھی نعمتوں میں کچھ کمی کر کے آزمائش میں مبتلا کرتا ہے ۔ اور دیکھتا ہے کہ میرا بندہ آزمائش کی ان دونوں صورتوں میں کس حد تک سرخرو یا ناکام ہوتا ہے ۔ آج ہم آپ کی ملاقات ایک ایسے ہی شخص سے کروانے جارہے ہیں جس کو اللہ نے ایک آزمائش میں ڈالا مگر اس شخص نے ہمت نہیں ہاری اور دونوں ہاتھوں سے محروم ہونے کے باوجود وہ نارمل انسانوں سے بھی بڑھ کر کام کرتا ہے ۔
اس کا نام محمدشہباز ہے اور یہ دیپالپور کے ایک گاؤں بہاولداس کا رہائشی ہے محمدشہباز کیساتھ یہ حادثہ کیسے ہوا جس کے نتیجے میں یہ دونوں ہاتھوں سے محروم ہوگیا اس کے جواب میں اس کا کہنا تھا کہ بچچارہ کاٹتے ہوئے اس کے ہاتھ مشین میں آکر کٹ گئے اس کے بعد اگرچہ زندگی خاصی مشکل رہی مگر شہباز نے ہمت نہیں ہاری ۔شہباز کے ٹھیکیدار کا کہنا ہے کہ دونوں ہاتھوں سے محروم ہونے کے باوجود شہباز عام لوگوں سے بڑھ کر کام کرتا ہے اور ان لوگوں کیلئے ایک مثال ہے جو مشکل کے چند دنوں سے گھبرا کر قدرت سے شکوہ کرنے لگ جاتے ہیں ۔

محمدشہباز اس حساس معذوری کے باوجود پرعزم اور اللہ کا شکرگزار ہے اور اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر حکومت اسے کوئی جاب دے دے تو وہ ہر طرح کے کام کو بحسن و خوبی سرانجام دے سکتا ہے ۔ محمدشہباز روزانہ دیہاڑی کیلئے گھر سے نکلتا ہے اور اپنے بچوں کیلئے روزی روٹی کماتا ہے ۔ محمدشہباز کے چار بچے ہیں اور وہ چاہتا ہے کہ وہ محنت مزدوری کر کے انہیں پڑھائے لکھائے اور وہ معاشرے کے باعزت شہری بن کر ملک و قوم کی خدمت کریں ۔
یہ تو تھا شہباز کی عزم و ہمت کی کہانی سے ایک مختصر احوال اب شہباز اور اس جیسے دیگر بھائیوں کیساتھ ایک نا انصافی کی روداد بھی سن لیجئے کہ حکومت کی جانب سے لاک ڈاوَن سے متاثر ہونیوالے افراد کیلئے احساس امداد پروگرام شروع کیا گیا ہے مگر اس پروگرام میں ایک نئی صورتحال اس وقت سامنے آگئی جب محمدشہباز کواحساس امداد کیلئے حکومت کی جانب سے تو اہل قرار دے دیا گیا مگر اس کے باوجود اسے رقم نہیں مل سکی اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ امداد فنگرپرنٹس کے ذریعے دی جارہی ہے جبکہ محمدشہباز دونوں ہاتھوں سے معذور ہے ۔ محمدشہباز کا کہنا ہے کہ اس نے 8171پر اپنے کوائف بھیجے تھے جس کے بعد اسے جوابی میسج ملا کہ وہ اپنے شناختی کارڈ کیساتھ سنٹر جاکر بارہ ہزار روپے وصول کرلے مگر جب وہاں گیا تو وہاں موجود انتظامیہ نے کہا کہ وہ فنگرپرنٹس کے بغیر رقم ہرگز نہیں دے سکتے ۔
جن لوگوں کے ہاتھ ہی نہیں ہیں وہ فنگر پرنٹس کیسے فراہم کرسکتے ہیں لہٰذا اس بارے حکومت فوری طور پر کوئی اقدام اٹھائے تاکہ شہباز سمیت اس جیسے دیگر معذور افراد کو یہ امداد حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔