تحریر:قاسم علی…
دیپالپور کے حلقہ پی پی 187 کی کل آبادی 366966ہے جبکہ یہاں کے ووٹرز کی تعداد 206015ہے جن میں سے مرد ووٹرز کی تعداد 116107اور 89908خواتین ووٹ کا حق رکھتی ہیں ۔اب جبکہ الیکشن صرف دس دن کی دوری پر ہے ایسے میں یہاں پرسیاسی گرما گرمی اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے۔ویسے تو یہاں سے ایک درجن امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کروائے ہیں مگران میں سے آدھے امیدوار29جون سے آگے نہ بڑھ سکے اور کچھ امیدوار دیگر کے حق میں دستبردار ہوگئے ۔تاہم جو اپنی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں ان میں ملک علی عباس کھوکھر،چوہدری طارق ارشاد خان،میاں بلال عمر بودلہ،محمودحیدرخان بلوچ،سجاد حیدر وٹو ویڈووکیٹ،میاں محمدرفیع سکھیرا اورصدف عائشہ خلصانہ ایڈووکیٹ نمایاں ہیں۔
ملک علی عباس کھوکھر ۔
ملک علی عباس کے خاندان کی سیاست کا دورانیہ ساٹھ سال پرمحیط ہے ملک علی عباس کے نانا ملک نوراحمد پاکستان کے صوبہ پنجاب میں ہونے والے ملکی تاریخ کے پہلے عام انتخابات میں ایم این اے منتخب ہوئے تھے ۔اس کے بعد 1985 ء سے لے کر1997ء تک ملک محمدعباس کھوکھر الیکشن لڑتے رہے اور سوائے 1988ء میں معمولی ووٹوں کی شکست کے ہربار انہیں کامیابی ملتی رہی ۔ملک عباس کھوکھر کے بعد ان کے فرزند ملک علی عباس کھوکھر نے 2008ء میں آزاد حیثیت سے الیکشن میں حصہ لیا اور کامیاب ہوئے اور بعدازاں انہوں نے یہ جیت مسلم لیگ ن کے ہی نام کردی ۔اسی طرح 2013ء میں انہوں نے مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر کامیابی حاصل کی ۔
اس الیکشن میں بہت سے امیدوار 25جولائی کو ملک علی عباس کھوکھر کی شکست کے اعلان کا انتظار کررہے ہیں مگر ملک علی عباس اب بھی مطمئن ہیں ہیں کہ جیت اس بار بھی ان کا مقدر بنے گی دلچسپ بات یہ ہے کہ ملک علی عباس تشہیری مہم میں سب سے پیچھے ہیں مگر کیمپین میں سب سے آگے ہیں ۔
چوہدری طارق ارشاد خان۔
پاکستان تحریک انصاف کے صدر ضلع اوکاڑہ چوہدری طارق ارشاد خان 2013ء کے انتخابات میں ملک علی عباس کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہے تھے اس الیکشن میں انہوں نے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر 18000سے زائد ووٹ لئے تھے مگرملک علی عباس کے 41000ووٹوں تک نہ پہنچ سکے اور ہارگئے ۔اب کی بار ایک بار پھر وہ بلے کے انتخابی نشان کیساتھ میدان میں ہیں اور ان کی الیکشن کیمپین بڑے زوروشور سے جاری ہے اور جس طرح مختلف برادریاں اور بڑے دھڑے ان کی حمائت میں اعلانات کررہے ہیں اور جس طرح ملک میں مجموعی طور پر پی ٹی آئی کی جیت کی فضا بن چکی ہے اس سے چوہدری طارق ارشاد خان کی جیت کے بہت چانسز تھے لیکن اسی دوران 16 جولائی کو پی ٹی آئی کے رہنما معروف سکالر ڈاکٹرامجدوحید ڈولہ نے پی ٹی آئی نہ صرف چھوڑ دی بلکہ انہوں نے پی ٹی آئی کا چہرہ کچھ اس طرح بے نقاب کیا کہ اس کا اثر لازمی پڑھے لکھے ووٹر پرضرور پڑے گا کیوں کہ ڈاکٹر صاحب نے اپنی پریس کانفرنس میں یہ ثابت کردیا ہے کہ پی ٹی آئی اپنے تمام نظریات سے ہٹ کر اسٹیبلشمنٹ کی جماعت بن چکی ہے.
میاں بلال عمر بودلہ۔
میاں بلال عمربودلہ معروف سیاسی شخصیت اور سابق چیئرمین میونسپل کمیٹی دیپالپور میاں محمدعمربودلہ مرحوم کے صاحبزادے ہیں اور پہلی بار ایم پی اے کے الیکشن پر آزاد حیثیت میں تانگہ کے انتخابی نشان پرحصہ لے رے ہیں ۔اس سے قبل وہ جنرل کونسلر اور دپیالپور بارایسوسی ایشن کے انتخابات میں سرخرو ہوچکے ہیں ۔میاں بلال پی پی 187کے تمام امیدواروں میں اپنی شعلہ بیانی کے باعث نمایاں ہیں۔اور ان کے لگائے ہوئے نعرے”میرا شہر،میرا نمائندہ”کو دیپالپورسٹی کے نوجوانوں میں بہت پزیرائی ملی ہے اور اس بنا پر ایسا دکھائی دے رہاہے کہ وہ دیپالپور سٹی سے سرپرائزووٹ لے سکتے ہیں۔لیکن دوسری جانب ان کے اس نعرے کو مخالف امیدوار اور دیہی علاقوں کے ووٹر تنقید کا نشانہ بھی بنا رہے ہیں کہ انہوں نے صرف شہر دیپالپور کو فوکس کر کے سینکڑوں دیہات کو ابھی سے نظرانداز کردیا ہے شائد یہی وجہ بھی ہے کہ ان کی پوزیشن شہری علاقے سے باہر زیادہ حوصلہ افزا نہیں ہے۔میرے خیال میں میاں بلال عمر کواگرسرپرائز وکٹری مل گئی تو اس کا ایک بڑا سبب” میرا شہر میرا نمائندہ ” کا نعرہ ہوگا اور اگر ہارگئے تو بھی ان کی کشتی ڈبونے میں اس نعرے کا بڑا کردار ہوگا۔
محمودحیدرخان بلوچ۔
بلوچ برادری اس سے قبل ہمیشہ ملک علی عباس کو سپورٹ کرتی آرہی تھی اور ان کی کامیابیوں میں بلوچ برادری کا ایک بہت بڑا عمل تھا لیکن اب کی بار تمام برادری نے محمود حیدر خان بلوچ کو اپنی نمائندگی کیلئے منتخب کیا ہے ۔محمودحیدرخان بلوچ کا انحصار زیادہ تر اپنی بلوچ برادری پرہے جس کا اپنا بہت سا ووٹ بنک ہے ۔اور اگر تمام برادری ان کو بھرپور سپورٹ کرتی ہے تو ان کو ان کوکم از کم دس ہزارووٹ اپنے گھر سے ہی مل سکتا ہے تاہم ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہاکیوں کہ بہت سے بلوچوں کے ملک علی عباس کیساتھ معاملات طے پاچکنےکی اطلاعات ہیں کہ ملک برادری نے ان کو اپنی حمائت کیلئے راضی کرلیا ہے۔
میاں سجاد حیدروٹو۔
میاں سجاد حیدروٹو تحریک لبیک پاکستان کے امیدوار ہیں اور کرین کے انتخابی نشان پر میدان میں ہیں ۔میاں سجاد حیدروٹو ایک سینئر ایڈووکیٹ اور انتہائی ملنسار شخصیت ہیں بلکہ اگر یہ کہاجائے توغلط نہ ہوگا کہ لوگوں کی ہر خوشی غمی اور دکھ سکھ میں جتنی شرکت انہوں نے کی ہے اتنی کسی دوسرے امیدوار نے نہیں کی ۔میاں سجاد حیدر وٹو کو امید ہے کہ وہ اپنے ذاتی تعلقات کی بنا پر حلقے میں موجود مذہبی ووٹ کی مدد سے کامیابی حاصل کرلیں گے۔تاہم مجموعی طور پر ان کی پوزیشن کمزور ہے۔
میاں محمدرفیع سکھیرا۔
میاں محمدرفیع سکھیرا متحدہ مجلس عمل کے امیدوار ہیں جو کتاب کے انتخابی نشان پر الیکشن لڑرہے ہیں ۔آپ جماعت اسلامی کے پرانے ورکر اور شریف النفس شخصیت ہیں ہمیشہ ہی پسماندہ اور پسے ہوئے طبقات کیلئے آواز اٹھاتے رہے ہیں ۔اس سے قبل بھی عام انتخابات میں حصہ لیتے رہے ہیں تاہم کامیابی کبھی ان کا مقدر نہیں بنی ۔دیکھتے ہیں اب کی بار عوام ان پر کتنا اعتماد کرتے ہیں ۔
صدف عائشہ خلصانہ۔
صدف عائشہ بھی ایک ایڈووکیٹ ہیں اس سے قبل وہ بار کی سیاست میں حصہ لیتی رہی ہیں تاہم عام انتخابات کے دنگل میں انہوں نے پہلی بار قدم رکھا ہے ۔صدف عائشہ کی کیمپین بہت کمزور ہے حالاں کہ اگر وہ حلقے میں موجود 89908 خواتین ووٹرز پر ہی فوکس کرلیتیں تو وہ اچھا خاصا ووٹ سمیٹ سکتی تھیں مگر لگتا ہے وہ الیکشن سے قبل ہی ہمت ہار بیٹھی ہیں اوراسی طرح وہ الیکشن بھی ہار جائیں گی۔
