دیپالپورمیں چارخواتین کے قتل کے محرکات کیا تھے ؟
تحریر:قاسم علی…
دنیا خیر و شر کی آماجگاہ ہے جہاں آئے روز جرم و سزا کا سلسلہ جاری رہتا ہے ایسے میں کچھ ایسے واقعات بھی رونما ہوتے ہیں جنہیں دیکھ اور سن کر دل دہل جاتا ہے ۔ایک ہفتہ قبل دیپالپور کے نواحی علاقے چورستہ 38/Dمیں بھی ایسی ہی ایک اندوہناک واردات ہوئی جس نے ہر ایک کے رونگھٹے کھڑے کردئیے اس واردات میں ایک ہی خاندان کی چار خواتین کو کلہاڑیوں کے وار کرکے بیدردی سے قتل کردیا گیاتھا ۔
واقعہ کی تفصیلات کچھ یوں ہیں کہ چورستہ کے انورشاہ مرحوم کی دو بیویوں سے اولاد تھی پہلی بیوی جو کافی عرصہ پہلے انتقال کرگئی تھی اس سے اس کے دوبیٹے اور ایک بیٹی تھی۔پہلی بیوی کے انتقال کے بعد اس نے دوسری شادی مریم سے کی تھی جس سے اس کی چھ بیٹیاں اور ایک بیٹا تھا۔ان چھ میں سے چاربیٹیوں کی شادی ہوچکی تھی جبکہ دو غیرشادی شدہ بیٹیاں کالج میں زیرتعلیم تھیں۔
چھ بہنوں کا اکلوتا بھائی چند ماہ قبل ایک روڈ ایکسیڈنٹ میں جاں بحق ہوگیا تھا ۔انور شاہ کو اپنے اس بیٹے کی ناگہانی موت کا انتہائی دکھ تھا اور یہی دکھ اسے اندر ہی اندر گھن کی طرح کھاتا رہااور آخر کار انور شاہ ڈیڑھ ماہ قبل اپنے بیٹے کو یاد کرتے کرتے اسی کے پاس پہنچ گیا۔
جس رات یہ خوفناک واردات ہوئی اس سے دو روز قبل انور شاہ کا چہلم تھا۔
مدعی مقدمہ خضرشاہ ولدعلی مرتضیٰ کے مطابق وہ تیس تاریخ کو اپنی بیٹی کے ہمراہ سسرال آیا ہوا تھا میری دس سالہ بیٹی فاطمہ اپنی دادی کے پاس سو گئی جبکہ وہ قریبی دربار کے حجرہ میں سوگیا ۔اسی رات تین بجے کے قریب فضل شاہ نے علی رضا شاہ اور محسن شاہ کے ساتھ مل کر مریم بی بی ،اس کی دو بیٹیوں اور ایک پوتی کو کلہاڑیوں کے وار کرتے ہوئے جان سے ماردیا۔یاد رہے مرکزی ملزم فضل شاہ مقتولہ مریم بی بی کا پوتا ہے۔
خضر شاہ نے واردات کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ مرحوم انورشاہ نے سیدعلی رضا وغیرہ کے خلاف اراضی کا کیس دائر کررکھا تھا ۔انور شاہ کے انتقال کے بعد مریم بی بی اس کیس کی پیروی کررہی تھی جس کا ملزمان کو دکھ تھا اور انہوں نے زمین کے لالچ میں اندھے ہوکر یہ انتہائی اقدام اٹھایاہے۔
قتل کی یہ واردات ہوتے ہی پورے علاقے میں کہرام مچ گیا ۔علاقہ مکینوں نے بتایا کہ انور شاہ کی رسم چہلم کے موقع پر یہ ملزمان آئے تھے اور صلح کے بہانے یہاں ہی رک گئے تھے مگر ان کی نیت کچھ اور تھی اور آج یہ دلدوز واقع پیش آگیا۔
واقعہ کی اطلاع پر مقامی پولیس جائے وقوعہ پر پہنچی اور دوملزمان کو گرفتار کرلیا لیکن فضل شاہ مفرور تھا جس کو مرکزی ملزم سمجھا جارہاتھا لیکن پولیس نے تحقیقات جاری رکھیں اور آخر کار کال ریکارڈنگ اور تیکینیکی رخ پر تحقیقات کام کرگئیں اور ملزم فضل شاہ کو داتا دربار لاہور سے گرفتار کرلیا گیا۔
مرکزی ملزم فضل شاہ نے ایف آئی آر کے برعکس بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس نے اپنی دادی اور پھوپھیوں کو جائیداد کی خاطر نہیں بلکہ غیرت میں آکر قتل کیا ہے۔کیوں کہ اسے مقتولین کے کردار پر شک تھا اور اس پر میں نے متعدد بار ان کو روکا تھا لیکن وہ باز نہ آئی تھیں جس پر آخرکار میں نے تنگ آکر یہ انتہائی قدم اٹھایا ہے۔فاطمہ کے بارے میں اس نے کہا کہ اس کا قتل اس لئے کیا کہ وہ زبان نہ کھول دے کیوں کہ وہ مجھے پہچانتی تھی۔فضل شاہ کا کہنا ہے کہ اس نے چاروں کو اکیلے ہی قتل کیا ہے اس میں کوئی اور شریک نہیں ہے۔
فضل شاہ نے کہا کہ وہ اسلام آباد میں اپنا بزنس کرتا تھا اور چندروز قبل ہی اسلام آباد سے واپس آیا تھا میری دونوں پھوپھیاں جو دیپالپور ووکیشنل کالج میں جاتی تھیں جس کا اسے دکھ تھا کہ ان کے غیرمردوں سے تعلقات تھے اور ان کے قتل سے قبل میری کئی بار ان سے اس بارے تکرار ہوئی تھی۔
پولیس کے مطابق ڈی پی او اطہراسماعیل اس واردات کے بعد خود موقع پر پہنچے اور انہوں نے مظلوم خاندان کو یقین دلایا کہ وہ خود اس معاملے پر کام کریں گے اور جلد ہی ملزمان کو پکڑ لیاجائے گااور واقعی پولیس نے تیز رفتاری سے ملزمان کی گرفتاری کیلئے سائنسی بنیادوں پر کام کیا اور ملزمان گرفتار کرلئے گئے ہیں تاہم معاملے کی تحقیقات کی جارہی ہیں کہ قتل کی اس واردات کے پیچھے اصل محرکات کیا ہیں ۔