تحریر:قاسم علی…
سوال:ڈاکٹر صاحب آپ اپنی ابتدائی زندگی اور تعلیم کے بارے میں اوکاڑہ ڈائری قارئین کو کچھ بتائیں۔
ڈاکٹر امجد وحید ڈولہ: میں31دسمبر 1973ء کو دیپالپور کے موضع ڈولہ پختہ میں پیدا ہوا۔جامعہ پنجاب کی فیکیلٹی آف اورینٹل اینڈاسلامک لرننگزسے تہذیبوں کے تصادم کی وجوہات کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور نیشنل یونیورسٹی آف سنگاپور سے ریسرچ میتھڈز کی تربیت حاصل کی ۔چودہ برس پر مشتمل تدریسی زندگی میں بشریاتِ اسلام،مسلم معاشرے اوراسلامی تہذیب کے حوالے سے کورسز پڑھانے کے علاوہ 32 ایم فل اور پی ایچ ڈی سکالرز کی نگرانی کا فریضہ سرانجام د یا اور بیشمار قومی اور بین الاقومی کانفرنسز میں مقالہ جات پیش کیے۔ 2005ء میں استنبول میں ہونے والے سویلائزیشنز اینڈ ورلڈ آرڈر سمپوزیم میں سیموئیل پی ہنٹنگٹن کے تہذیبوں کے تصادم اور سابق ایرانی صدر محمد خاتمی کے تہذیبوں کے درمیان مکالمہ کا رد کرتے ہوئے تہذیبوں کی انجمن(لیگ آف سویلائزیشنز) کا نظریہ پیش کیا۔ یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور کے سکول آف ایڈوانسڈ سٹڈیز کے ڈائریکٹر اور شعبہ اسلامی فکروتہذیب کے چیئرمین کے طور پرفرائض سرانجام دئیے اور ہائیر ایجوکیشن کمیشن پاکستان کی قومی کمیٹی برائے جائزہ نصاب کے ممبراور جرنل آف اسلامک تھاٹ اینڈ سویلائزیشن کا ایڈیٹر بھی رہا۔ اکتوبر2015 ء کے بلدیاتی انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے عملی سیاست کا آغاز کیا اور آج کل دیپالپور کے حلقہ پی پی 187 جیسے موروثی سیاست کے گڑھ میں مروجہ سیاسی کلچر کو بدلنے میں مصروفِ عمل ہوں ۔
سوال:ڈاکٹر صاحب آپ نے سیاست میں آنے کا فیصلہ کیوں کیا ؟
جواب:میرا سیاست میں آنا درحقیقت میری تدریسی ذمہ داریوں کا ہی تسلسل ہے۔یونیورسٹی میں تدریس کے دوران میں نے گریجوایٹ،ماسٹرز اور پی ایچ ڈی لیول کے جتنے بھی کورسز پڑھائے وہ میرے اپنے ڈیزائن کئے ہوئے تھے لیکن یہ سب کورسز کلاس روم میں پڑھائے جانیوالے تھے ۔تدریسی عمل کی معاشرے سے لاتعلقی کا مجھے ہمیشہ سے شدت سے احساس رہا اور خصوصاََ میں نے جب یونیورسٹی کے آخری سال یعنی 2015ء میں ثقافتی بشریات کے طالبعلموں کو بشریاتِ اسلام اوراسلامی فکروتہذیب کے طالبعلموں کومسلم ثقافتیں اور معاشرے کے عنوان سے کورسز پڑھائے تو میرا یہی احساس اور شدید ہوگیا ۔ میری یہ خواہش تھی کہ تدریس کا عمل براہِ راست معاشرے سے متعلق ہونا چاہئے ۔میرے خیال میں ہمارے معاشرے میں سیاست ایک ایسا شعبہ ہے کہ جو درحقیقت تعلیم بالغاں ہی کی ایک صورت ہے اور اس میں تدریس کے عمل اورمعاشرے کے درمیان گہرا تعلق ہے ۔دوسری طرف اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں پاکستان میں ایک تیسری بڑی جماعت کے ابھر کر سامنے آنے سے سیاست میں نئے لوگوں کے آنے کی گنجائش بھی پیدا ہورہی تھی تو مجھے احساس ہوا کہ ایسے لمحے میں سیاسی عمل کا حصہ بنا جاسکتا ہے ۔
سوال: آپ اس وقت پاکستان تحریکِ انصاف کیساتھ وابستہ ہیں ،آپ نے اپنے سیاسی کیریئر کیلئے اسی سیاسی جماعت کا ہی انتخاب کیوں کیا ؟
ڈاکٹرامجد وحید ڈولہ:پاکستان میں کافی عرصے سے دوبڑی سیاسی جماعتیں سرگرم عمل تھیں پہلی دفعہ پاکستان تحریک انصاف تیسری بڑی جماعت کی صورت میں سامنے آئی ہے اور اس نے نئے سیاسی آئیڈیلز کی بات بھی کی اور ملک میں انصاف اور میرٹ کی بالا دستی کا نعرہ بھی لگایا ۔لیکن کسی بھی سیاسی جماعت کے رخ کا تعین اس میں شامل ہونیوالے افراد کرتے ہیں اور عمران خان کی خواہش بھی تھی کہ پڑھے لکھے لوگ سیاسی عمل کا حصہ بنیں اور اس جماعت میں شریک ہوں کیوں کہ اگر نئے لوگ سیاسی عمل کا حصہ بنیں گے تو پھر ہی نئے آئیڈیلز کی تکمیل ممکن ہے ان حالات میں سیاست کا آغاز کرنے کیلئے پاکستان تحریک انصاف ایک بہتر آپشن تھی ۔
سوال :آپ سیاست اور سماج کے تعلق کو کس نظر سے دیکھتے ہیں ؟
ڈاکٹرامجد وحید ڈولہ: سیاست ریاست اور سماج کے درمیان پل کا کردار اداکرتی ہے یہ ریاست اور سماج میں گہرے تعلق کا ذریعہ ہے ۔ایک طرف توسیاستدان کا براہِ راست سماج کے ہرشعبے اور سرگرمی سے تعلق رہتا ہے اور دوسری طرف یہی سیاستدان ریاستی مشینری کا بھی ایک لازمی حصہ ہوتا ہے ۔صرف سیاستدان ہی یہ ممکن بنا سکتا ہے کہ ریاستی سطح پر ہونے والی قانون سازی سماجی عمل کے مطابق ہونہ کہ اس کو نقصان پہنچانے کا باعث بنے ۔ریاست اور سماج کو ایک تعلق مہیا کرنے کیساتھ ساتھ سیاستدان سماج کا رُخ متعین کرنے کا باعث بھی بن سکتا ہے اور سماجی تبدیلی اور سماجی ارتقاکے عمل کو تقویت دینے کا باعث بھی بن سکتا ہے ۔
سوال: آپ الیکشن جیت کر کیوں کر مفید ترین ہوں گے یا یوں کہہ لیں آپ خود کو ہی بہترین انتخاب کیوں سمجھتے ہیں ؟
ڈاکٹرامجد وحید ڈولہ:پاکستانی سیاست کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ عوامی نمائندے عوام کی ترجمانی کا صحیح حق ادانہیں کرتے وہ عوام کی آواز پارلیمان تک پہنچانے کا ذریعہ نہیں بنتے یہی وجہ ہے کہ اسمبلیوں میں قانون سازی عوامی امنگوں اور عوامی مفادات کی عکاس نہیں ہوتی ۔اور نہ ہی قومی اور علاقائی منصوبہ بندی کے حوالے سے عوامی نمائندگی کا حق اداہوپاتاہے کامیابی کی صورت میں میری سب سے پہلی کوشش یہی ہوگی کہ میں عوام کی حقیقی آواز کو اسمبلی کے فلورتک پہنچاؤں ۔
سوال:آپ کے خیال میں ملک کے تین بڑے مسائل کیا ہیں ؟
ڈاکٹر امجدوحید ڈولہ:میری نظر میں پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہمارا نوآبادیاتی دور کا بنایا ہوا نظامِ تعلیم ہے ۔یہ ایک ایسا نظام تعلیم ہے جو طالب علم کے اندر تنقیدی سوچ پیدا نہیں کرتااور انہیں مہذب شہری بنانے کی بجائے صرف آداب محکومی سکھاتا ہے۔قیام پاکستان کے بعد قائداعظم کی بھی یہ شدیدخواہش تھی کہ اس تعلیمی نظام کی تعمیرنو کی جائے لیکن ہم آج تک اس مسئلے کو حل نہیں کرپائے ۔دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے تعلیم کی طرح صحت کے شعبے کو بھی کمرشل بنیادوں پر چلانے کی کوشش کی ہے ہمارے نظام تعلیم کی طرح ہمارا نظامِ صحت بھی بیوپاریوں کے ہاتھ میں ہے اور اچھے ہسپتال صرف بڑے شہروں تک محدود ہیں ۔چھوٹے شہر اور دیہات کو صحت کی مساوی سہولیات میسر نہیں ہیں اور ان علاقوں میں سرکاری ہسپتالوں کا نظام کسی اعتبار سے بھی تسلی بخش نہیں ہے ۔تیسرا بڑا مسئلہ میرٹ کے کلچر کا نہ ہونا ہے ۔
سوال: مقامی سطح پر آپ کن تین بڑے مسائل کو حل طلب سمجھتے ہیں ؟
ڈاکٹرامجدوحید ڈولہ:ہمارا علاقہ اور ہمارا حلقہ کاشتکاری کے حوالے سے معروف ہے اور اس علاقے کے لوگوں کا سب سے بڑا مسئلہ زمینداروں کی فصلوں کو مناسب قیمت نہ مل پانا ہے اور فصلوں پر آنے والے اخراجات بدترین مہنگائی کا ثبوت ہیں ۔زراعت کے حوالے سے قومی سطح پرمناسب منصوبہ بندی نہ ہونے کی وجہ سے ہمارا حلقہ سب سے زیادہ متاثر ہونے والے علاقوں میں سے ایک ہے اور ہمارے اراکینِ اسمبلی اس مسئلے کو مناسب انداز میں اجاگر کرنے میں ناکام رہے ہیں۔دوسری طرف ہمارے علاقے میں بجلی چوری اور پانی چوری کا کلچر ختم نہیں کیاجاسکا اور حکومتی اراکین کیساتھ وابسطہ لوگ عام کاشتکار تک نہری پانی نہیں پہنچتے دیتے۔اسی طرح اُسی مخصوص طبقے کی زیرسرپرستی بجلی چوری ہونے کی وجہ سے عام صارف اووربلنگ کا شکاررہتا ہے
سوال: ڈاکٹرصاحب آپ ملکی ترقی کو کس نظر سے دیکھتے ہیں اور اگرآپ جیت گئے توآپ کی ترجیح کون سے ترقیاتی منصوبے ہوں گے ؟
ڈاکٹرامجدوحید ڈولہ:ملکی ترقی کو دیکھنے کے حوالے سے صرف اتنا ہی کافی نہیں کہ میں اسے کس نظر سے دیکھتا ہوں بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ دنیا اس کو کس نظر سے دیکھتی ہے اور حقائق و اعداد وشمار کی روشنی میں اسے کیسے دیکھا جانا چاہئے۔ملکی ترقی کو دیکھنے کیلئے عالمی سطح پر ایک میعار موجود ہے جسے انسانی ترقی کا اعشاریہ کہا جاتا ہے اس انڈیکس کی 2017ء کی رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا کے 188 ممالک میں سے 147ویں نمبر ہے ۔اور اس انڈیکس کی رینکنگ کی چار میں سے تیسری کیٹیگری میں بھی آخری نمبر ہے ۔اس انڈیکس کے مطابق ایک پاکستانی کی اوسط عمر 66برس ہے اور اس میں سے وہ آٹھ سال سکول جاتا ہے اسی طرح صحت کے معاملے میں بھی اور غربت کی شرح کے اعتبار سے بھی پاکستان کی صورتحال نہائت ابتر ہے۔پاکستان کا اس انڈیکس کے میعارات پر پورا نہ اترنے کی میری نظر میں دو وجوہات ہیں ۔پہلی وجہ ہماری حکومتی اداروں اور انتظامی شعبوں کا بہت زیادہ مرکزیت کا شکار ہونا ہے ۔حکومت اور انتظامی شعبوں کو ڈی سینٹرلائزڈ کرنے کی ضرورت ہے ۔دوسری وجہ مرکز سے لے کر ضلعی سطح تک سیاسی اور انتظامی لیڈرشپ کا احتساب نہ ہونا ہے ۔ان حقائق کی روشنی میں میری ترجیحِ اول ایسے منصوبے ہوں گے جو صحت اور تعلیم کے میعار کو بہتر کرسکیں اور جو غربت کی شرح کو کم کرنے میں مدددے سکیں۔
سوال:آپ ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کو کس حدتک اختیارات دینے کے حامی ہیں ؟
جواب:پاکستانی سیاست کا سب سے بڑا مسئلہ ہی یہ ہے کہ سیاسی عمل سیاست کے مراکز تک محدود ہوچکا ہے اور طاقت کے ایوان لاہور اور اسلام آباد تک محدود ہوچکے ہیں ۔طاقت کی اس مرکزیت کو توڑنے کیلئے اور انتظامی اور سیاسی سطح پر بہتر نتائج حاصل کرنے کیلئے ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کو زیادہ سے زیادہ اختیارات دینے کی ضرورت ہے ۔بدقسمتی سے ہمارے اکثراراکینِ اسمبلی بلدیاتی سینڈروم کا شکار ہیں اور وہ ضلعی حکومتوں کو کسی قسم کے اختیارات دینے کے حق میں نہیں ہیں ۔ان اراکین اسمبلی کو قانون سازی اور قومی و صوبائی سطح کی منصوبہ بندی تک محدود کرنا چاہئے اور ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کو صحت اور تعلیم کے شعبوں کا بھی مکمل کنٹرول ملنا چاہئے اور لوگوں کو روزگار مہیا کرنابھی ان کے اختیار میں ہونا چاہئے ۔
سوال: اپنے علاقے کے لوگوں ،عورتوں ،بچوں اور نوجواں کیلئے کیا تفریحی منصوبے شروع کریں گے ؟
ڈاکٹرامجدوحیدڈولہ:ہمارے علاقے میں عوامی استعمال کی ایسی کافی زمین موجود ہے کہ جہاں پر قبضہ گروپ قابض ہے یا پھر اس کے علاوہ سرکاری زمین بھی موجود ہے جہاں پر عورتوں ،بچوں اور بزرگوں کیلئے علیحدہ پارکس بنائے جاسکتے ہیں ۔اس کے علاوہ سرکاری سطح پر اچھے جمنیزیم تعمیر کئے جاسکتے ہیں اور میری اولین ترجیح دیپالپور کلچرل کمپلیکس کی تعمیر ہوگی جو ثقافت کو فروغ دینے اور تفریح کے مواقع فراہم کرنے کا ذریعہ بنے گا اس کے علاوہ اسی کمپلیکس کی توسیع کے طور پر دیہاتی علاقوں کیلئے موبائل تھیٹر کی سہولت بھی فراہم کی جائے گی۔
سوال :جیتنے کے بعد آپ لوگوں سے کس طرح رابطہ برقرار رکھیں گے ؟
ڈاکٹرامجدوحید ڈولہ:سوشل میڈیا اور ٹیلی فونک رابطے کے علاوہ میں اپنے حلقے کے دفتر میں مخصوص اوقات میں لوگوں سے ملاقات کیلئے موجودگی کو یقینی بناؤں گا اس کے علاوہ حلقہ کے ہر پٹوارسرکل میں باقاعدہ نشستوں کا اہتمام بھی جاری رہے گا ۔نظام میں ایسی تبدیلیاں لانا بھی ممکن ہے کہ اکثرلوگوں کو رابطے کی کم سے کم ضرورت پڑے اور ان کے مسائل کسی ون ونڈوآپریشن کے ذریعے خود بخود حل ہوسکیں ۔لوگوں کو لیڈرشپ سے رابطے کی ضرورت پڑتی ہی اس لئے ہے کہ مختلف حکومتی شعبے لوگوں کو بلاجوازتنگ کرتے ہیں ۔واپڈا بلاوجہ اووبلنگ کرتا ہے ،ہسپتالوں میں غریب آدمی کی دادرسی نہیں ہوتی ،تعلیمی اداروں میں بچوں کے داخلے کے مسائل ختم نہیں ہوتے اور تھانے میں لوگوں کو مشکلات درپیش آتی ہیں۔اگر ان باتوں کا تدارک کردیا جائے اورعوام کو یہ مسائل پیدا ہی نہ ہوں تو میرے خیال میں لوگوں کو سیاستدانوں سے رابطے کی بہت زیادہ ضرورت ہی نہیں رہے گی اور میں سمجھتا ہوں کہ ان مسائل کے حل کیلئے لوگوں سے رابطے سے بھی زیادہ ان اداروں کی اصلاح اور ان اداروں میں بیٹھے افسران کے احتساب کی ضرورت ہے۔