تحریر:قاسم علی…
انتخابات جمہوریت کی علامت اورحسن ہوا کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان جمہوری روایات کو قائم رکھنے کیلئے باقاعدگی سے انتخابات کروائے جاتے ہیں انہی جمہوری روایات کے پیش نظر 13جنوری کو دیپالپور بار ایسوسی ایشن میں انتخابات منعقد کئے گئے یادرہے پنجاب بار کونسل کے وائس چیئرمین ملک عنائت اللہ اعوان اور چیئرمین ایگزیکٹو کمیٹی ملک عظمت علی بخاری نے جب یکم دسمبر کو اعلان کیا کہ پنجاب بھر میں تحصیل اور ضلعی بار ایسوسی ایشنز کے انتخابات 13جنوری کو منعقد ہوں گے تب سے بار انتخابات کیلئے جوڑ توڑ اور کیمپین شروع ہوگئی تھی۔
تحصیل دیپالپور پنجاب میں آبادی اور رقبے کے لحاظ سے پہلے نمبر ہے جو کہ 26اضلاع سے بڑی ہے اسی طرح دیپالپور بار ایسوسی ایشن ممبرزکی تعداد بھی پنجاب کی تمام بارایسوسی ایشنوں میں نمایاں ہے یہی وجہ ہے کہ دیپالپور بار ایسوسی ایشن کے انتخابی نتائج کو کافی اہم سمجھا جاتا ہے۔
دیپالپور بارایسوسی ایشن میں 1050ممبرز ہیں جن میں سے تقریباََ چالیس فی میل وکلا ء بھی شامل ہیں ۔
دیپالپور بار ایسوسی ایشن 1956ء میں قائم ہوئی اور اس کے بعد سے ہی ہر سال یہاں پر الیکشن ہوتے آرہے ہیں ۔جبکہ سب سے زیادہ بار صدارت کا اعزاز سابق صدربار سینئر وکیل رہنما شریف ظٖرجوئیہ کو حاصل ہوا جو آٹھ بار عہدہ صدارت پر متمکن ہوئے جن میں سے پانچ مرتبہ تو وہ بلامقابلہ ہی جیت نے ان کے قدم چومے ۔
حالیہ انتخابات میں عہدہ صدارت کیلئے دو امیدواران قاضی ضرغام الحق اور چوہدری وحید کے مابین ون آن ون مقابلہ تھا۔
قاضی ضرغام الحق دیپالپور بار کے موسٹ سینئر وکیل ہیں اور پہلے بھی پانچ بار بار کی صدارت کرچکے ہیں ان کو دیپالپور کی غیرمتنازعہ شخصیات میں سے ایک کہاجائے تو شائد غلط نہ ہوگا۔ الیکشن سے پہلے ہی اس سیٹ پرجیت کیلئے فیورٹ سمجھے جارہے تھے جس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ انہیں میاں سعید وٹو فرینڈز گروپ،میاں ماجد حسین وٹوٹھکر کا لائرز فورم ،چوہدری آصف موہل کے علامہ اقبال فورم اور سینئر وکلاء میاں سرورصابر،چوہدری ریاض اورارشاد شاہ کے ساتھ ساتھ سابق وزیراعلی پنجاب میاں منظوراحمدخان وٹو،موجودہ وفاقی پارلیمانی سیکرٹری راؤاجمل خان،ایم پی اے میاں معین وٹو،ایم پی اے ملک علی عباس کھوکھر اور سردار شہریار موکل جیسی قداہم سیاسی شخصیات کی بھی حمائت حاصل تھی۔
جبکہ ان کے مدمقابل چوہدری وحید احمدپہلے ایک مرتبہ الیکشن لڑے مگر میاں ماجد حسین وٹو کے مقابلے میں انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑاتھا۔ چوہدری وحیداحمد جینئس لائرز فورم کے امیدوار تھے جنہیں جینئیس لائرز گروپ کے علاوہ جناح گروپ اوربلال بودلہ گروپ کی حمائت حاصل تھی تاہم اس کیساتھ ساتھ چوہدری وحید احمد کو یقین تھا کہ دھڑوں سے ہٹ کر نوجوان وکلاء کا ایک خاموش ووٹ بنک بھی ہے جو انہیں سپورٹ کرے گا
جنرل سیکرٹری کیلئے خادم حسین وٹو ،جسٹس لائرز گروپ کے امیدوارپیر طاہر معین چشتی اورراؤمحمد احمدالیکشن لڑرہے تھے تاہم پیرطاہر معین چشتی اور راؤمحمد احمد کے مابین کانٹے دار مقابلے کی توقع تھی ۔
نائب صدرچوہدری تنویر اکبر اور فرخ مقبول جوئیہ کے درمیان ون ٹوون میچ تھا۔
انتخابی عمل کیلئے وقت اگرچہ پانچ بجے ختم ہوجانا تھا مگر اس بار شدید بدنظمی دیکھنے میں آئی اور بار بار پولنگ کا عمل منقطع کرنا پڑتا تھا جس کی وجہ سے پولنگ کا وقت بڑھا دیا گیا اور یہ سلسلہ سات بجے تک جاری رہا مگر اس وقت تک بھی سینکڑوں وکلاء ووٹ ڈالنے کیلئے کھڑے تھے۔مگر اسی دوران یہ بدنظمی جھگڑے میں تبدیل ہوگئی اور بات یہاں تک بڑھ گئی کہ مشتعل وکلاء نے بیلٹ باکسز کو اٹھا کر باہر پھینک دیا اور بیلٹ پیپرز کو آگ لگادی ۔
اس ہنگامہ آرائی کے بعد الیکشن بورڈ نے بار انتخابات کو ملتوی کرتے ہوئے پنجاب بار کونسل کو رپورٹ بھیج دی جس میں الیکشن بورڈ نے انتخابات کے دوران غیرجمہوری رویہ اپنانے اور الیکشن التوا کا ذمہ دار قاضی ضرغام الحق اور اس کے ساتھیوں کو قراردیا ۔
چیئرمین الیکشن بورڈمیاں ناصر محمود وٹو ایڈووکیٹ اور ممبرز الیکشن بورڈرانا عاصم خلیل ایڈووکیٹ اور میاں محمد احمد وٹوکی جانب سے چیئرمین ایگزیکٹوکمیٹی پنجاب کو بھیجی گئی رپورٹ کے میں کہا گیا کہ سات بجے قاضی ضرغام الحق اپنے ساتھیوں کے ہمراہ بارروم میں داخل ہوگئے اور الیکشن بورڈ کے خلاف نازیبا زبان استعمال کی اور شدید نعرے بازی کی اور بعد ازاں بیلٹ باکسز اٹھا کر ان کو آگ لگادی ۔
جھگڑے کی بنیاد دونوں صدارتی امیدواروں کے سپورٹرز بنے جو ایک دوسرے پر دھاندلی کے الزامات لگارہے تھے ۔چوہدری وحید کے سپورٹرز کا کہنا تھا کہ قاضی ضرغام الحق کی ہار یقینی تھی اس لئے انہوں نے جان بوجھ کر الیکشن بورڈ کو پریشرائز کیا اور بیلٹ پیپرز جلاڈالے دوسری جانب قاضی ضرغام الحق کے ساتھی چوہدری وحید کے سپورٹرز پر دھاندلی کے الزامات لگاتے نظر آئے جس کے ردعمل میں یہ ناخوشگوار واقعہ پیش آیا۔
اس کے بعد الیکشن ملتوی کردیا گیا اور 23جنوری کو دوبارہ میدان سجا تو چوہدری وحید صدر منتخب ہوگئے انہوں نے 443ووٹ لئے جبکہ ان کے مخالف امیدوار قاضی ضرغام کو 365ووٹ مل سکے اسی طرح فرخ مقبول جوئیہ 446ووٹوں کیساتھ نائب صدارت کے عہدہ پر جیت گئے ان کے مدمقابل چوہدری تنویر اکبر کو 357ووٹ ملے جنرل سیکرٹری کیلئے طاہر معیشن چشتی اور راؤمحمد احمد کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہوا تاہم فتح نے طاہر معین چشتی کے قدم چومے جنہوں نے 312ووٹ لے کر اپنے دونوں مخالف امیدواروں کو ہرا دیا اسی طرح میڈم عائشہ صدف خلصانہ نے 482ووٹ لے کر اپنے مقابل خواجہ حامد کو ہرادیا جو 312ووٹ لے پائے۔