دیپالپور بار کے انتخابات ،کس کا پلڑا بھاری ہے ؟ 200

دیپالپور بار کے انتخابات ،کس کا پلڑا بھاری ہے ؟

تحریر:قاسم علی

دیپال پوربار ایسوسی ایشن سال 2022-23 کے انتخابی دنگل کا آغاز ہوچکا ہے۔دیپالپوربار کے 1450سے زائدمعززممبران اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔اس الیکشن میں صدارتی امیدوار کے طور پر سید کنول رحمن بخاری ایڈووکیٹ اورمعروف قانون دان چوھدری محمداکرم ٹیپو ایڈووکیٹ کے درمیان ون ٹوون مقابلہ ہے۔جبکہ نائب صدر کے لئے ریاض حسین طائر،سردار محمد حنیف ڈوگر اورچوھدری طاہر عزیز میدان میں ہیں۔اسی طرح سیکرٹری بارکی سیٹ پر علی انعام الحق کھوکھر کاپیر فیاض جہانگیر بودلہ ایڈووکیٹ ہائی کورٹ کے ساتھ مقابلہ ہے۔

جہاں تک صدر کی سیٹ پر مقابلے کا تعلق ہے تو اس پر نیاز احمد پھلرون کے انتقال کے بعد چوہدری محمداکرم ٹیپو کی فتح تقریباََ یقینی دکھائی دے رہی ہے اور اس کے پیچھے چوہدری محمداکرم ٹیپوکی دوسالہ کیمپین ہے ۔کیوں کہ ٹیپو صاحب گزشتہ برس بھی دیوان مصداق کے مقابلے میں صدارتی امیدوار تھے اور چند ووٹوں سے ہار گئے تھے ۔لیکن اس ہار کے بعد بھی انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور پورا سال مسلسل کیمپین کرتے رہے جس کا فائدہ بھی انہیںضرور ہوگا۔دوسری جانب سید کنول رحمان بخاری بھی اگرچہ سینئر ایڈووکیٹ ہیں لیکن وہ حادثاتی طور پر اس دوڑ میں شامل ہوئے چونکہ ان کا ہوم ورک بھی نہ ہونے کے برابر ہے اس لئے ان کی جیت کم و بیش ناممکن لگ رہی ہے۔

اس ضمن میں ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ دیپالپور بار کے سینئر و جونئر وکلاء کی بڑی تعداد کیساتھ ساتھ گزشتہ برس کے ونر اور چوہدری محمداکرم ٹیپو کے حریف رہنے والے دیوان مصداق سمیت پوری دیوان فیملی کے وکلاء بھی چوہدری محمداکرم ٹیپو کی حمائت کررہے ہیں ۔اور اس میں دیوان فیملی اور حویلی لکھا کی معروف شخصیت دیوان شاہزیب نے مرکزی کردار ادا کیا ۔

یاد رہے صدر کی سیٹ پر محترم نیاز احمد پھلرون اور چوہدری محمداکرم ٹیپو کے درمیان مقابلہ متوقع تھا مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا کیوں کہ تین دسمبر کو نیاز احمد پھلرون ایڈووکیٹ کو برین ہیمبرج ہو گیا ۔سات دسمبر کواگرچہ ان کا آپریشن بھی کامیاب ہوگیا تاہم وہ جانبر نہ ہوسکے اور بارہ دسمبر کو انتقال کر گئے ۔ان کے انتقال کے بعد نیاز احمدپھلرون کی جگہ سید کنول رحمان بخاری نے صدر کے امیدوار کے طور پر اپنے کاغذات جمع کروا دئیے یوں اب صدر کی سیٹ پر چوہدری محمداکرم ٹیپو اور سیدکنول رحمان بخاری کے مابین ون آن ون مقابلہ ہوگا۔

نائب صدر کیلئے تین امیدواران ریاض حسین طائر،سردار محمد حنیف ڈوگر اورچوھدری طاہر عزیز میدان میں ہیں ۔اور جہاں تک میں نے سروے کیا ہے تو اس مقابلے میں ریاض حسین طائر صاحب کی پوزیشن خاصی مضبوط ہے اور لگ یہی رہا ہے کہ وہ اس بار دیپالپور بار کے نائب صدر منتخب ہو جائیں گے۔

دوسری جانب دیپالپور بار ایسوسی ایشن کے دو باصلاحیت ممبرزفیاض جہانگیر بودلہ اور علی انعام کھوکھرکے مابین سیکرٹری بار کیلئے معرکے کا فیصلہ بھی آج ہونے جا رہا ہے۔ہر ایک دیکھ اور سوچ رہا ہے کہ اس بار جیت کس کا مقدر بنے گی۔مجھے نہیں معلوم کہ الیکشن کا رزلٹ انانس ہونے سے قبل جیت کا اندازہ لگانے کا کیا معیار ہوتا ہے تاہم میں تو بڑے ادب کیساتھ یہاں اپنا نقطہ نظر ہی دے سکتا ہوں ۔

میرے خیال میں اگر الیکشن میں جیت کا دارومدار کھانے پر ہے تو اس لحاظ سے علی انعام سمجھو جیت گیا کیوں کہ علی انعام کی جانب سے دئیے گئے دونوں کھانوں میں ڈشز زیادہ بھی تھیں اور کھانا بہت وافر بھی تھا۔اور اگر جیت میں بڑا کردار وکلا برادری کی بھرپور شرکت اور جذبے کا ہوتا ہے تو سچی بات یہ ہے کہ یہاں بھی علی انعام بازی لے گیا ہے کیوں کہ میں نے بھائی فیاض جہانگیر کے مقابلے میں علی انعام کھوکھر کیلئے نوجوان وکلا کو زیادہ سرعت کیساتھ کیمپین کرتے اور زیادہ جوش کیساتھ نعرے لگاتے دیکھا ہے ۔اور اگر الیکشن میں جیت کیلئے بہترین تقریر بھی کاؤنٹ کی جاتی ہے تو علی انعام کی تقریر محترم فیاض جہانگیر کے مقابلے میں زیادہ بہتر اور متوازن تھی جس میں ایک اہم چیز یہ تھی کہ انہوں نے اپنے بلند عزائم کیساتھ ساتھ دنیا سے چلے جانے والے سینئر وکلا کو بھی باقاعدہ نام لے کر یادکیا اور ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا ۔

قصہ مختصر یہ کہ الیکشن کے اوائل میں محترم فیاض جہانگیر بودلہ کی پوزیشن مضبوط تھی لیکن علی انعام کھوکھر کی جانب سے کی جانیوالی طوفانی کیمپین اور نوجوان وکلاء کی پرجوش حمائت نے مقابلہ سخت دلچسپ اور کانٹے دار بنا دیا ہے کچھ بھی ہوسکتا ہے بس پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں