سستے رمضان بازار عوام کیلئے فائدہ مند یا فضول مشق ؟
قاسم علی..
رمضان آتے ہی جہاں سستے رمضان بازار اور سستی اشیاء کے چرچے عام ہو جاتے ہیں وہیں سرکاری مشینری بھی عوام کو اشیائے خورد و نوش میں ریلیف دینے کے لیے متحرک نظر آتی ہے تاہم یہاں سوال یہ ہے ایسا صرف رمضان میں ہی کیوں ممکن ہے؟سال کے باقی گیارہ ماہ مہنگائی کا جن بے قابو رہتا ہے لیکن صرف رمضان میں پرائس کنڑول کمیٹیوں اور عوامی نمائندگان کی پھرتیاں ذخیرہ اندوزوں اور منافع خوروں کے خلاف کمر بستہ دکھائی دیتی ہیں۔اور دوسرا سوال یہ بھی کہ کیا واقعی یہ رمضان بازار عوام کیلئے سُودمند ثابت ہوتے ہیں یا کہ صرف یہ کارکردگی بھی صرف اشتہاروں میں نظر آتی ہے.
محمد عمران کریانے کی دکان چلاتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ہر ماہ سودا سلف لینے کے لیے انہیں شہر آنا پڑتا ہے لیکن جو ریٹس رمضان المبارک میں دیکھنے کو ملتے ہیں وہ دیگر ایام میں نظر نہیں آتے جس کی ایک وجہ ضلعی افسران کی جانب سے قیمتوں کے متعلق روزانہ کی بنیاد پر کی جانے والی جانچ پڑتال ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ اس ماہ میں ضلعی افسران اور پرائس کنٹرول کمیٹیاں وقتًا فوقتًا رمضان سٹالز کا دورہ کرتی رہتی ہیں جس سے دکاندار حضرات ناجائز منافع خوری سے باز رہتے ہیں۔ایک شخص نے بتایا کہ میونسپل افسران، فوڈ انسپکٹرز اور پرائس کنٹرول کمیٹیوں کے اہلکار ہر ماہ تنخواہیں لیتے ہیں مگر کام صرف رمضان میں کرتے ہیں، جن کا بڑا مقصد عوام کو اشیاء پر ریلیف کی جھنڈی دیکھا کر افسران تک سب اچھا ہے کی رپورٹ پہنچانا ہوتی ہے۔ حکومت نے اگر ریلیف دینا ہے تو اجتماعی طور دے اور اس کا دائرہ کار صرف سستے رمضان سٹالز یا رمضان بازار تک نہ محدود رکھے۔لوگوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر رمضان جیسی پھرتیاں سال کے باقی ماہ بھی جاری رکھی جائیں تو مہنگائی یکسر ختم ہو سکتی ہے تاہم اس کے لیے اداروں کو صحیح معنوں میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔
اوکاڑہ ڈائری نے جب عوام سے پرائس کنٹرول کمیٹیوں کی کارکردگی بارے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ وہ ان کمیٹیوں سے انتہائی مایوس ہیں کیونکہ کمیٹیاں ناجائز منافع خوروں کا قلعہ قمع کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ہر سال کمیٹی کی مارکیٹ اشیاء ہر توجہ صرف رمضان کے مہینوں میں ہوتی ہے جبکہ باقی سارہ سال مہنگائی کی ماری عوام کی پکار کوئی نہیں سنتا۔
لوگوں کا کہنا تھا کہ گھی، چینی، آٹا، دالیں، چاول، بیسن، انڈے اور سبزیوں سمیت مختلف اشیاء کی قیمتوں میں کمی رمضان الکریم میں کچھ فائدہ مندضرور ہے تاہم رمضان ریلیف دینے کے بارے میں اکثر لوگوں کا کہنا تھا کہ رمضان بازاروں میں عوام کو اتنا ریلیف نہیں ملتا جتنا اس کا ڈھنڈورہ پنجاب حکومت پیٹتی اور اس کیلئے بجٹ مختص کرتی ہے.لوگوں نے اس پروجیکٹ کو بند کرکے ایسا سسٹم بنانے کی ضرورت پر زور دیا ہے جس سے ہر ایک کو ہرجگہ ریلیف مل سکے.کئی افراد نے اس منصوبے کوفضول اور حکومتی افسران و اراکین اسمبلی کی نمائش قراردیا.
خریداری کرتی ایک خاتون تبسم پروین بتاتی ہیں کہ صرف ایک ماہ تک سبسڈی کے دعوے پورے کرنا انصاف نہیں ہے۔”حکومت کو سوچنا چاہیئے کہ عام صارف نے محض رمضان میں ہی خریداری نہیں کرنی ہوتی، سال کے باقی مہینوں میں بھی اسے خریداری کی ضرورت پڑتی ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت نے اگر ریلیف دینا ہے تو اجتماعی طور دے اور اس کا دائرہ کار صرف سستے رمضان سٹالز یا رمضان بازار تک نہ محدود رکھے۔ایک سبزی فروش اللہ دتہ کے مطابق ریٹس کے کم یا زائد ہونے کا تعلق کسی خاص مہینے سے نہیں ہے بلکہ اشیاء کی طلب و رسد کے لحاظ سے ہے۔”جو چیز منڈی میں وافر مقدار میں موجود ہو اس کے دام کم ہو جاتے ہیں جبکہ جو چیز منڈی میں نایاب یا ذخیرہ اندوزوں کے ہاتھ لگ جائے اس چیز کے دام بڑھا دیے جاتے ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ اس سارے معاملے کو اعلیٰ سرکاری سطح سے لے کر عام دکاندار تک ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے تبھی سبسڈی اور ریلیف کی اصل شکل دیکھنے کو مل سکے گی۔
بشیراحمدنامی ایک شخص جو کمیٹی میں سیوریج سے متعلق شکائت کیلئے آیا ہوا تھا جب میں اس سے رمضان بازار بارے پوچھ بیٹھا تو وہ پھٹ پڑا س نے کہا کہ ہماری پوری گلی ایک ہفتے سے گندے پانی کی وجہ سے بند ہے گٹر ابل رہے ہیں مگر ہم نے جب بھی کمیٹی رابطہ کیا تو ہمیں بتایا گیا کہ رمضان بازار کی تیاری ہورہی ہے اس کے بعد وہاں آئیں گے.بشیراحمد نے کہا کہ اگر رمضان بازار کی وجہ سے دیگر محکموں نے بھی یہاں تک محدود ہوجانا ہے تو ان بازاروں کاکوئی فائدہ نہیں ہے.
ایک اور بندے نے بڑے جلے کٹے انداز میں کہا کہ رمضان بازار عوام کو ریلیف کی بجائے مصیبت میں مبتلا کرتا ہے دس سے زائد محکمے یہاں پر اس لئے جھونک دئیے جاتے ہیں کہ یہاں کا دورہ کرنے والے افسران کو سب اچھا نظر آئے حالاں کہ یہاں کچھ بھی اچھا نہیں ہے اور نہ ہی کچھ سستا ہے حکومت ان رمضان بازروں کو بند کرے.
ایک سٹوڈنٹ نے بہت اچھی تجویز دی کہ اگر حکومت نے عوام کو ریلیف دینا ہی ہے تو اسے چاہئے کہ پہلے سے موجود یوٹیلٹی سٹورز پر اشیائے خوردونوش پر سبسڈی دے دیا کرے اس کیلئے اسے رمضان بازاروں کا فضول ڈرامہ رچانے کی کیا ضرورت ہے.