سینئر صحافی اورمعروف نیوز ایجنسی ہولڈرملک محمدمصطفی مرحوم کی برسی اورکچھ یادیں
تحریر:قاسم علی…
محرم الحرام انتہائی تاریخی و مذہبی اہمیت کا حامل مہینہ ہے اس کے پہلے عشرے میں بیشمار ایسے واقعات پیش آچکے ہیں جو انسانی تاریخ پر انمٹ نقوش چھوڑ گئے۔ آج دس محرم کا دن تیسرے برس سے خاص طور پر دیپالپور کے ان افراد کیلئے لازمی غم کا عنصر لئے ہوتا ہے جو کئی عشروں سے اخبار کے باقاعدہ قاری ہیں۔جی ہاں بالکل ٹھیک تین برس قبل اسی روزمعروف صحافی اورنیوز ایجنسی ہولڈر ملک محمد مصطفیٰ 63برس کی عمر میں انتقال ہوکرگئے.مجھے ان کے انتقا ل کی خبر سب سے پہلے محترم جاوید جسکانی صاحب نے دی۔یہ میرے لئے انتہائی افسوسناک لمحہ تھا کیوں کہ مجھے ملک صاحب کیساتھ ایک دلی لگاؤتھا اپنے انتقال سے چند روز قبل ہی وہ میرے غریب خانے پر تشریف لائے تھے ان کیساتھ شائد ان کا بیٹا افضل تھا میرے اصرار کے باوجود وہ زیادہ دیر نہ رکے کیوں کہ طبیعت میں کافی نقاہت اور کمزوری تھی ۔وہ شوگر کے عارضہ میں بھی مبتلا تھے اور یہی نامراد مرض ان کی زندگی کے خاتمے کا باعث بھی بنی۔بہر حال ان کے بیٹوں نے اچھی روائت یہ ڈالی ہے کہ وہ ان کی برسی انگریزی مہینے کی بجائے محرم الحرام کی دس تاریخ کو مناتے ہیں۔ اور آج ایک بار پھر ان کی برسی ہے اس سلسلے میں جمعہ کی نماز کے بعد ان کی رہائشگاہ واقعہ گلزار کالونی میں ان کے ایصال ثواب کیلئے قرآن خوانی ہوگی۔
آج ان کی برسی کا دن ہے تومیرے ذہن میں وہ ساری پرانی یادیں اور باتیں گھوم گئیں جو ملک ساحب کیساتھ وابستہ تھیں۔ یہ 1992ء کی بات ہے جب مجھے کرکٹ معلومات جمع کرنے کا پاگل پن کی حد تک شوق تھا۔یہ شوق اتنا تھا کہ میں نے ہرروز دو تین اخبار لگوا رکھے تھے کہ شائد دوسرے اخبار میں کھیل کی زیادہ اور مختلف خبریں ہوں جس کو ایک اخبار کور نہ کرسکا ہو۔ایک دن اخبار لانے والے نے مجھ سے پوچھ لیا کہ بیٹا آپ کی شاپ تو ایک ہے مگر آپ تین اخبار کس لئے لیتے ہو تو میں نے بتایا کہ اس کی وجہ کھیل کی خبروں سے باخبر رہنا ہے خاص طور پر دنیا بھر میں ہونے والے کرکٹ میچز کی تفصیلات بارے جاننے کیلئے زیادہ اخبار لیتا ہوں ۔انہوں نے میری بات غور سے سنی اور یہ کہہ کر چلے گئے کہ” اچھا میں تمھارا بندوبست کرتا ہوں” یہ ہاکر انکل ملک مصطفیٰ تھے میں نے پوچھا کیسا بندوبست چاچاجی تو انہوں نے کہا یہ تو کل پتا چلے گااور یہ کر انہوں نے اپنی کاواساکی دوڑا دی۔چونکہ ان کے لب و لہجہ میں ایک گھن گرج بھی ہوا کرتی تھی اور میری کوئی زیادہ ان کیساتھ بے تکلفی بھی نہ تھی اس لئے میں سوچ میں پڑگیا کہ پتا نہیں کل کو کیا ہونے والا ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ چاچا مصطفی اخبار ہی نہ دے۔خیر خدا خدا کرکے کل ہوئی تو یں صبح صبح ہی سڑک کنارے لگے درخت کے نیچے چاچامصطفی کا بڑی شدت سے منتظر تھا ۔چونکہ ان دنوں پاکپتن روڈ پر بہت زیادہ رش نہیں ہوتا تھا اس لئے میں نے دور سے انہیں دیکھ لیا اس روز مجھے یہ بھی اندازہ ہوا کہ اس شخص میں کتنی چستی،فٹنس اور ذمہ داری کا احساس تھا کہ وہ علی الصبح اٹھ کر ایک اکیلا آدمی اخبارات وصول کرتا اور ان کو پورے شہر میں ڈلیور کرتا تھا ان کی کاواساکی موٹرسائیکل بڑی سپیڈ سے سڑکوں اور گلیوں میں رواں دواں رہتی اور ہر ایک کو چائے کیساتھ اخبار مہیا ہوجاتی تھی ۔بہر حال وہ میرے پاس آکر رکے اور مجھے اخبارات کیساتھ ایک رسالہ بھی دیا جس پر ماہنامہ کرکٹر لکھا ہوا تھا ۔ملک صاحب نے بتایا کہ اس رسالے میں پورے مہینے کی کرکٹ سرگرمیوں کی تفصیلات ہوتی ہیں ۔یہی نہیں بلکہ اس میں کرکٹ ہسٹری اورپرانے کھلاڑیوں کا تعارف بھی ہوتا ہے بس پھر کیا تھا اس دن سے چاچا مصطفی اور بھی اچھے لگنے لگے اور میں نے کرکٹر کے پرانے رسالے بھی جو ان کے پاس پڑھے تھے وہ بھی کنگھال ڈالے۔
ملک مصطفیٰ صاحب نے اسی کی دہائی میں مدینہ چوک میں اخبارات کی ایجنسی والا کام شروع کیا تھا اور ساتھ میں کتابیں بھی رکھی تھی ان کی شاپ طاہر بکڈپو کے نام سے مشہور تھی بعد ازاں انہوں نے کتابیں ختم کردیں اور صرف نیوز ایجنسی پر فوکس رکھا ان دنوں مشرق ،امروز،نوائے وقت اور جنگ ہی زیادہ مقبول اخبارات تھے ۔
ملک صاحب بہت حاضر دماغ بھی تھے ایک بار مجھے کئی روز پہلے کی ایک اخبار کی ضرورت تھی جو ان کے پاس سے مل گئی لیکن جب انہوں نے پوری قیمت مانگی تو میں نے ازراہ مذاق کہا ملک جی یہ تو پرانا اخبار ہے آپ نے اس کی بھی پوری قیمت بتائی ہے تو انہوں نے فوری جواب دیا کہ پتر جی شکرکرو ڈبل قیمت نہیں لی کیوں کہ پرانی چیزوں کی قیمت بڑھتی ہے کم نہیں ہوتی۔
ملک صاحب نے انتہائی محنت اور لگن سے اپنے کام کو عروج تک پہنچایا صبح صبح ان کی دوکان پر لگنے والی رونق کا بھی اپنا ہی ایک مزا تھا دوکان کیا تھی یہ علم و ادب کی ایک بیٹھک ہوا کرتی تھی اور ساتھ ہی نخلستان ہوٹل پرحاجی شیدے شاہ کا خالص دیسی گھی سے تیارشدہ حلوہ پوری کا ناشتہ بھی اپنا رنگ جمائے ہوتا تھا ۔
2000ء کے بعد انہیں بیماری نے آن گھیرا وہ شوگر اور عارضہ قلب میں مبتلا ہوگئے اور یہی وہ وقت تھا جب پرویز مشرف دور میں اخبارات اور چینلزکا ایک طوفان برپا ہوگیا مگر انہوں نے اپنا میعار برقرار رکھا اور بڑے اخبارات کی نمائندگی ہی اپنے پاس رکھی جبکہ دیگر اخبارات کیلئے مزید کئی ایجنسیاں وجود میں آگئیں جو کئی بار بنتی اور ٹوٹتی رہیں مگر ملک مصطفیٰ کا لگایا ہوا پودا آج ایک تن آور درخت کی شکل اختیار کرچکا ہے جس کی آبیاری ان کے بیٹے ملک مصطفیٰ مرحوم کے پانچ بیٹوں میں ملک اظہر مصطفیٰ،ملک کاشف مصطفیٰ،ملک ماجدمصطفیٰ،ملک منصور مصطفیٰ اور ملک افضل مصطفیٰ بخوبی کررہے ہیں جس سے نہ صرف ان کو اللہ رزق دے رہاہے بلکہ اللہ نے ان کو صحافتی برادری و عوام الناس میں عزت و قدر سے بھی نوازا ہوا ہے۔اللہ تعالی ان تمام بھائیوں کو فلاح دارین نصیب فرمائے اور ہم سب کے بزرگ انکل ملک مصطفیٰ کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے۔
وہ صورتیں الٰہی جانے کہاں بستیاں ہیں
کہ جن کے دیکھنے کو آنکھیں ترستیاں ہیں