تحریر:قاسم علی
رواں برس کو کم از کم دیپالپورکی صحافی برادری کیلئے غم کا سال کہا جائے تو غلط نہ ہوگا جس میں چوہدری محمد حسین ایاز ، میاں رب نواز جوئیہ ، مہر اعزاز حیدر اور چودھری محمد رفیع چنڈور پہلے ہی ہمیں داغِ مفارقت دے چکے ہیں اور اب حاجی عطا الرحمان لکھوی بھی کینسر کے خلاف جنگ لڑتے لڑتے خالق حقیقی سے جاملے ہیں۔
دیپالپور پریس کلب و انجمن صحافیاں رجسٹرڈ کے بانی حاجی عطالرحمان لکھوی ایک انتہائی خوش مزاج،حاضردماغ اور نفیس انسان تھے ۔بہترسالہ حاجی عطا الرحمان لکھوی نے بطور استاد اپنے کیرئیر کا آغاز کیا اور اس دوران بیشمار بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا۔آپ گورنمنٹ ایلیمنٹری بوائز سکول نمبر2میں بطور ہیڈماسٹر بھی خدمات سرانجام دیتے رہے۔حاجی عطا الرحمن لکھوی کو ان کے معروف مذہبی لکھوی خاندان کے بزرگ ہونے کی بنا پر بھی تمام حلقوں میں عزت وتکریم کی نظروں سے دیکھا جاتا تھا۔
حاجی عطا الرحمان لکھوی کا شماردیپالپورکے اولین صحافیوں میں ہوتا تھا اور دیپالپور پریس کلب و انجمن صحافیاں رجسٹرڈ کے بانی بھی تھے ۔حاجی عطا الرحمن لکھوی کے پاکستان کے ممتازصحافیوں آغا شورش کاشمیری ، مجید نظامی اور مجیب الرحمن شامی کیساتھ ذاتی مراسم تھے اور مجیب الرحمان شامی نے ہی انہیں روزنامہ پاکستان کی نمائندگی دی تھی جو تادم مرگ ان کے پاس رہی ۔
حاجی عطالرحمان لکھوی کی اہلیہ بھی ماہرتعلیم تھیں اور گورنمنٹ گرلز ایلیمینٹری سکول دیپالپور کی ہیڈمسٹریس رہی تھیں اور تین سال قبل وہ بھی کینسر کے ہاتھوں زندگی ہارگئی تھیں اور اب تین سال قبل حاجی صاحب بھی طویل عرصہ کینسر میں مبتلا رہنے کے بعد خالق حقیقی سے جاملے۔
یہاں ایک اور بات بھی قابل ذکر ہے کہ حاجی صاحب گزشتہ ایک ڈیڑھ برس سے کینسر میں مبتلا تھے لیکن باوجود اس موذی مرض کے ان کے چہرے پر بشاشت اور مسکراہٹ ہوا کرتی تھی اور بہتربرس کی عمر میں بھی رونق محفل ہوا کرتے تھے۔دیپالپور میں ہونیوالے ہر اہم پروگرام میں ان سے ملاقات ہوتی تھی اور ان کے چہرے اور لب و لہجے سے بالکل بھی یہ نہیں لگتا تھا کہ وہ کینسر یا موت سے ذرہ برابر بھی خوفزدہ ہیں لیکن چونکہ موت ایک اٹل حقیقت ہے جس سے کسی کو مفر نہیں۔لہٰذا حاجی صاحب بھی اپنے مقررہ وقت پر داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔
کہنہ مشق صحافی،بہترین استاد،درویش صفت انسان حاجی عطا الرحمان لکھوی کے انتقال پر دیپالپور کی فضا سوگوار اور ہر آنکھ نم تھی ۔ان کی نماز جنازہ ٹینکی گراؤنڈ میں ادا کی گئی جس میں تمام علمی وادبی،صحافتی،سیاسی،مذہبی و کاروباری شخصیات سمیت تمام مکاتب فکر کے نمائندوں اور عوام کے جم غفیر نے شرکت کی ۔جبکہ ان کو دربار سخی سیدن سائیں میں سپردخاک کیا گیا ۔
مرحوم کے پسماندگان میں ایک بیٹا اور دو بیٹیاں شامل ہیں۔ حاجی عطالرحمان لکھوی کے انتقال سے شرافت اور علم و ادب کا ایک باب ختم ہوگیا ۔یقیناََ ہر جان نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے لیکن بعض ہستیوں کا خلا کبھی پر نہیں ہوتا حاجی عطالرحمان لکھوی بھی ایسی ہی ایک شخصیت تھے ان کا ہنستا مسکراتا چہرہ اب کبھی دیکھنے کو نہیں ملے گا تاہم وہ ہمارے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔