تحریر:قاسم علی
ضلع اوکاڑہ پاکستان کے ان حلقوں میں شمار ہوتا ہے جہاں پر پاکستان تحریک انصاف نے ٹکٹیں دینے کیلئے سب سے زیادہ غور کیا ہے ۔پہلے فیز میں جن حلقوں کیلئے امیدواروں کو ٹکٹ جاری کئے گئے تھے ان میں ضلع اوکاڑہ کے این اے 143اور این اے 144کے حلقوں کو خالی چھوڑا گیا تھا اور قوی امید ظاہر کی جارہی تھی کہ ان حلقوں کو خالی چھوڑنا سابق وزیراعلیٰ پنجاب اورمرکزی نائب صدرپاکستان پیپلزپارٹی میاں منظور احمد خان وٹو کی پی ٹی آئی کے ساتھ کسی ڈیل کا نتیجہ ہے ۔
جس کو پاکستان تحریک انصاف کے ووٹرز پسند نہیں کررہے تھے اور انہوں نے کھلم کھلا اظہار کیا تھا کہ ان حلقوں میں پاکستان تحریک انصاف کا امیدوارکھڑا نہ کرنااور اس کو میاں منظور وٹو کے سپردکرنا پی ٹی آئی ورکرز کی توہین ہے کیوں کہ اس الیکشن میں کامیابی کیلئے ان حلقوں میں پی ٹی آئی کے ورکرز نے انتھک محنت کی ہے اور اب اگر اس کو کھلا چھوڑا گیا تو بپھرے ہوئے پی ٹی آئی ٹائیگرزمنظوروٹو کی بجائے ن لیگ کو ووٹ دینا زیادہ پسند کریں گے۔اس ضمن میں پی ٹی کا ورکر یہ بھی کہتا دیکھا گیا کہ اگر منظور وٹو کی شرائط مانتے ہوئے انہیں چار سیٹیں دے دی گئی اور وہ ان پر جیت گئے تب بھی وہ پی ٹی آئی کیلئے مستقبل میں مسائل ہی کھڑے کریں گے کیوں کہ ان کا ماضی ایسا ہی رہاہے۔اس لئے ان کو اتنی چھوٹ نہیں دینی چاہئے۔
لیکن اب پی ٹی آئی ورکرز کیلئے یہ خبر یقیناََ خوشی کا باعث ہوگی کہ این اے 143کیلئے پی ٹی آئی نے اپنا امیدوار دے دیا ہے اور این اے 144کیلئے مزید غوروفکرجاری ہے۔
این اے 143کیلئے سید گلزارسبطین کو ٹکٹ جاری کیا گیا ہے سید گلزار سبطین شاہ کوٹکٹ ملنے پر ایک طرف پی ٹی آئی ورکر خوش ہے تو دوسری جانب کچھ مشکلات بھی نظرآرہی ہیں جن میں سب سے پہلے یہ کہ سید گلزار سبطین کا تعلق دیپالپور شہر سے نہیں ہے بلکہ وہ شیرگڑھ کے ہیں اور دیپالپور سے یہ دوری ان کوکچھ نقصان دے سکتی ہے۔
اور اس حوالے سے اس حلقہ کیلئے ٹکٹ کے امیدواران سیدعباس رضارضوی،راؤصفدرعلی خان اورسردار شہریارموکل کی بیس روزقبل ہونیوالی میٹنگ اور اس کے مشترکہ اعلامیہ کو بھی یادکرنا ضروری ہے جس میں یہ واضح طور پرکہاگیا تھاکہ اگر پارٹی قیادت ہم میں سے کسی کو ٹکٹ جاری کرے گی تو باقی دوست ہرطرح سے اپنے امیدوار کی کامیابی کیلئے زورلگائیں گے لیکن اگر یہ ٹکٹ ہمارے علاوہ کسی کو دیا گیا تو ہم اس بارے نیا لائحہ عمل بنائیں گے۔یقینی طورپراس میٹنگ میں جس طرف اشاہ کیا گیا تھا وہ میاں منظور وٹو اور سیدگلزارسبطین ہی تھے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ سردار شیریارموکل،سیدعباس رضا رضوی اور راؤصفدرعلی خان پارٹی کے فیصلے کے آگے سرخم تسلیم کرتے ہیں یا کہ بغاوت کرتے ہیں۔اگر یہ سب مل کر سیدگلزارسبطین کو سپورٹ کرتے ہیں تو یقیناََ پی ٹی آئی اس حلقے میں اچھا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں ہوگی ورنہ سید گلزارسبطین کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔تاہم پی ٹی آئی کا نظریاتی ووٹ ان کو ضرور ملے گا۔
اوکاڑہ میں دوسرا اہم ترین فیصلہ جو سامنے آیا ہے وہ یہ پارٹی نے سیدصمصام بخاری کا ٹکٹ منسوخ کردیا ہے اور اس پر ازسرنوغور کیاجارہاہے ممکن ہے کہ یہ ٹکٹ مسعود شفقت کو دے دیاجائے جو کہ اس حلقہ کیلئے آئیڈیل امیدوار ہیں ۔لگ یہ رہاہے کہ اگر صمصام بخاری کا ٹکٹ منسوخ ہوگیا تو مہرجاوید اقبال کا ٹکٹ بھی واپس ہوجائے گا کیوں کہ ان کو ٹکٹ دلوانے میں بڑا کردار صمصام بخاری نے ہی اداکیاتھا۔
پی پی 188میں عبداللہ طاہر کو ٹکٹ کی فراہمی کے فیصلے کو بھی بہترقراردیا جاسکتا ہے کیوں کہ وہ اچھی شہرت کی حامل ایک سوشل ورکرشخصیت ہیں اور ان کی کامیابی کے چانسز کافی زیادہ ہیں۔
ٹکٹوں کے حوالے سے ایک اہم فیصلہ اوکاڑہ کے پی پی189 میں سلیم سادق کو دئیے جانے والے ٹکٹ کا واپس کیاجانا بھی ہے جو کہ پہلے ہی ایک متنازعہ فیصلہ سمجھا جارہاتھا ۔اوراس فیصلے پر عام ووٹراور پی ٹی آئی ورکرحیران تھا کہ ایک ایسے شخص کو پارٹی ٹکٹ دیاجانا زیادتی ہے جو قربانیاں دینا تو دور کی بات ابھی پارٹی کا ممبر بھی نہیں ہے۔یادرہے سلیم صادق کو ٹکٹ دینے کے خلاف گزشتہ دنوں اوکاڑہ میں پارٹی رہنماؤں اور ورکروں نے احتجاجی پریس کانفرنس اور مظاہرہ بھی کیا تھا بہرحال مجموعی طور پر موجودہ فیصلوں کے بعد ضلع اوکاڑہ میں پی ٹی آئی کا ورکر پہلے کی نسبت زیادہ مطمئن ہے اور اگر باقی حلقوں کا فیصلہ بھی میرٹ پر ہوتا ہے اور جن حلقوں کیلئے ریویو ز ہورہے ہیں ان پر بھی اگر غور کرتے ہوئے بہترلوگوں کو سامنے لایا جاتا ہے تو یقینی طور پر پی ٹی آئی ضلع اوکاڑہ میں بہترین نتائج دے گی۔
