ضلع اوکاڑہ میں پی ٹی آئی کی زبوں حالی اور نیا متوقع تنظیمی ڈھانچہ

تحریر:محمودشفیع بھٹی…
خبر ہے کہ تحریک انصاف نے اپنی تمام ضلعی، تحصیل اور مقامی لیول کی تنظیموں کو تحلیل کرتے ہوۓ تمام اختیارات عمران خان اور شاہ محمود کو دے ديئے ہیں۔ خبر یہ بھی ہے کہ تحریک انصاف کی مرکزی قیادت نے نظریاتی اور سینئر ورکر تحریک انصاف بزرگ محترم اعجاز چودھری کو پنجاب کی صدارت کا گرین سگنل بھی دے دیا ہے۔ اعجاز چودھری کا تنظیمی سیٹ اپ میں فعال ہونا تحریک انصاف کے نظریاتی ورکرز کے لیے نمود صبح سے کم نہ ہوگا۔
ضلع اوکاڑہ میں تحریک انصاف کے قیام سے لیکر اب تک بہت سے نظریاتی لوگ موجود ہیں۔ جن میں شوکت علی قریشی ایڈووکیٹ،غلام نبی کھوکھر جیسے بانی اراکین اور اسی طرح فعال کردار ادا کرنے والے عزیز خان، سابق صدرپی ٹی آئی ضلع اوکاڑہ اظہر محمود، چودھری عبداللہ طاہر، خلیل الرحمان کاکڑ اور مرزا غضنفر بیگ جیسے لوگ موجود ہیں۔ تحریک انصاف اوکاڑہ میں ایک نظریہ بن کر ابھری تھی جسکا واضح ثبوت 2013 کے الیکشن میں این اے 147 سے وقار نول جیسے نظریاتی بندے کا کینڈین شہریت ترک کرکے الیکشن لڑنا اور کثیر تعداد میں ووٹ لینا، دیپال پور سے پروفیسر عبدالرؤف ڈولہ، اوکاڑہ سے مسعود شفقت ربیرا اور دیگران نے اسٹیٹس کو ہلا کے رکھ دیا۔
اوکاڑہ میں تحریک انصاف عملی طور پر اس وقت تنزلی کا شکار ہونا شروع ہوئی جب موجودہ ایم پی اے مسعود شفقت ربیرا کی رئے کو بالائے طاق رکھتے ہوۓ اشرف سوہنے کو شاہ محمودقریشی کی ہدائت پرقومی اسمبلی کا ٹکٹ جاری کردیا گیا۔ مسعود شفقت ریاض الحق جج کو ٹکٹ دلوانا چاہتے تھے۔ 2015 کے اس ضمنی الیکشن میں جہاں تحریک انصاف کی ضمانت ضبط ہوئی وہیں گروپ بندی اور پسند نا پسند کا بیج بو دیا گیا۔
راقم کا تعلق خود بھی تحریک انصاف سے ہے۔ مجھے تحریک انصاف میں لانے والے سید تنویر زبیر شاہ، جو کہ میاں محمود الرشید کے معتمد خاص ہیں کئی بار خان صاحب سے ملاقات بھی کر چکے ہیں، لیکن تاحال اس تنظیمی بحران پر بے بس نظر آرہے ہیں۔ تحریک انصاف کا اوکاڑہ میں زوال اشرف سوہنے کے متنازعہ ٹکٹ سے شروع ہوتا ہوا2018ء کے الیکشن میں اس وقت شدت اختیار کرگیاجب تحریک انصاف نے مسعود شفقت کی بجئے پیر صمصام بخاری کو ٹکٹ جاری کردیا۔ جس سے ایک طرف مسعود شفقت کی حق تلفی ہوئی دوسری طرف اسکا اثر اوکاڑہ کی نشست پر ہوا۔ اگر تحریک انصاف مسعود شفقت کو راوی اور جندراکہ کے حلقے کا ٹکٹ جاری کردیتی تو اوکاڑہ سٹی کی تمام نشستیں جس میں راؤ حسن سکندر، سلیم صادق اور عبداللہ طاہر جیت جاتے، لیکن پارلیمانی بورڈ نے پارٹی کی بہتری کی بجائےرائے حسن نواز کھرل کی مریدی کو اہمیت دی اوریوں اوکاڑہ جیسے اہم ضلع کوہاتھ سے نکل گیا.
اسی طرح دیپالپور میں بھی تحریک انصاف تقسیم کا شکار نظر آئی، دیپال کی سٹی نشست پر گلزار سبطین کو ٹکٹ جاری کردیا اور ساتھ ہی حجرہ کی نشست پر سابق لیگی صوبائی وزیر کیساتھ سیت ایڈجسٹمنٹ کرڈالی۔ اسی طرح منڈی احمد آباد، بصیرپور اور حویلی کی نشست پر منظور وٹو کی بطور آزاد امیدوار حمایت کا اعلان کرتے ہوئے دونوں صوبائی ٹکٹس انکے بیٹے اور بیٹی کو جاری کردیئے۔ جس سے تحریک انصاف کا انتخابی پینل پاش پاش ہوگیا۔ جبکہ یہاں پرفیاض وٹو جیسے کہنہ مشق سیاستدان کو نظر انداز کردیا گیا۔
اس وقت تحریک انصاف اوکاڑہ کی صدارت کے جوڑ توڑ عروج پر ہے۔ سابق صدر طارق ارشاد نے آج تک کسی ورکرز کنونشن یا تنظیمی معاملے میں دلچسپی کا اظہار تک نہیں کیا۔ ٹکٹوں کی تقسیم کے وقت اپنا ٹکٹ لیکر غائب ہوگئےجبکہ انہوں نے ورکرز کی حق تلفی پر آج تک آواز تک بلند کرنا مناسب نہیں سمجھی.
۔بدقسمتی سےاس وقت منڈی احمد آباد میں تحریک انصاف مفاد پرستوں کے ہاتھوں یرغمال بن چکی ہے۔ منتخب صدر کی راہ میں روڑے اٹکائے جارہے ہیں.ذاتی اناؤں کی تسکین لازمی سمجھی جارہی ہے اور اس بابت طارق ارشاد صاحب کی خاموشی مجرمانہ غفلت سے کم حیثیت نہیں رکھتی .اس تمام صورتحال کی وجہ سے ہی ایک عام اور نظریاتی ورکر انتہائی مایوس ہوچکا ہے اور کسی ایسی شخصیت کا منتظر ہے جو پارٹی کی ڈوبتی ناؤ کو کنارے لگانے کیلئے اپنی تمام ترصلاحیتیں صرف کردے ناکہ صرف اپنی ٹکٹ لے کر کارکنوں کو بیچ منجھدھار چھوڑ دے میرے مطابق سیدعباس رضا رضوی اور اظہرمحمود ضلعی صدارت کیلئے موزوں ترین امیدوار ہیں.

نوٹ:مضمون نگار محمود شفیع بھٹی کا تعلق تحصیل دیپالپور کے نواحی علاقے منڈی احمدآباد سے ہے.آپ کالم نگار اور بلاگر ہیں اور ان کے بلاگز مختلف ویب سائٹس پر شائع ہوتے رہے ہیں.علاوہ ازیں آپ پاکستان فیڈریشن آف کالمسٹس کے جوائنٹ سیکرٹری ضلع اوکاڑہ کے عہدہ پر بھی فائز ہیں.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button