awami sawari cycle 1,476

عوامی سواری سائیکل کہاں گئی ؟

تحریر:قاسم علی…

صاحب جی ساری دنیاسائیکل کا استعمال چھوڑ دے مگر میں اس کو نہیں چھوڑوں گا مجھے اس سواری سے اسی طرح ہی پیار ہے جس طرح مجھے اپنی گھر والی سے ہے یہ کہنا تھا منچریاں کے رہائشی ملک نذر محمد کا اور وہ اپنے کہے کا ثبوت بھی اس طرح دیتا نظر آتا ہے کہ اکثر اوقات وہ اور اس کی بیوی وزیراں بی بی دونوں ایک ساتھ ہی سائیکل پر دیکھے جاتے ہیں۔
ملک نذر محمد ایک چھوٹا سا زمیندار ہے جس نے اپنے گھر سے دس کلومیٹر دور چار ایکڑ زمین کاشت کی ہوئی ہے اور وہ اس کی دیکھ بھال اور دیگر امور کیلئے سائیکل ہی استعمال کرتا ہے ستر سالہ ملک نذر محمد کہتا ہے کہ وہ اتنی عمر ہونے کے باوجود ابھی تک فٹ ہے جس کی وجہ یہی میری پیاری سواری سائیکل ہے ۔
ملک نذر محمد نے بتایا کہ وہ بیس پچیس کلومیٹر تک کے درمیانی شہروں میں سائیکل پر ہی آتا جاتا ہے اور اس کیلئے اسے کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔
cycle ki kahani
گورنمنٹ ڈگری کالج دیپالپور کی پارکنگ میں موٹرسائیکلوں کا ہجوم تھا مگر ایسے میں کالج کے دروازے میں اپنی سائیکل پرداخل ہوتے ایک سٹوڈنٹ امجد نے میرے پوچھنے پر بتایا کہ وہ سکول تک تو اپنے گاؤں میں پڑھتا رہا مگر کالج کیلئے مجھے شہر آنا پڑتا ہے جبکہ میرے والدین اتنا افورڈ نہیں کرسکتے کہ مجھے موٹرسائیکل لے کر دے سکیں۔
بابا نصراللہ محمدعلی اوکاڑہ کے رہائشی ہیں جو نہ صرف ایک سماجی تنظیم چلاتے ہیں بلکہ اس کیساتھ ساتھ وہ ایک حکیم بھی ہیں اوکاڑہ شہر میں جہاں گاڑیاں اور موٹرسائیکلیں ہر سُوچیختی چنگھاڑتی نظر آتی ہیں وہیں سفید ریش 75سالہ بابا مرزا کی سائیکل بھی کسی سے کم شان نہیں رکھتی سائیکل کی اگلی سائیڈ پر ایک کالے رنگ کا تھیلا بھی باندھا ہوتا ہے جس میں کچھ فائلیں اورچند ادویات ہوتی ہیں
بابا محمدعلی نے اوکاڑہ ڈائری کو بتا یا کہ سائکل کیساتھ اس کا ساتھ بچپن سے ہے اور مرتے دم تک رہے گا سائیکل کی سواری میری قابلِ رشک صحت کا راز بھی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ 1957ء سے سائیکل چلارہے ہیں اور سائیکل کےبے پناہ فوائد مجھے اس سے دور نہیں ہونے دیتے مثلاََ مجھ کو ہی دیکھ لیں کہ میں ساری عمر کبھی بھی موٹاپے،بلڈ پریشر اوردل کے امراض کا شکار نہیں ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ جب میں نے 57میں سائیکل چلانا شروع کیا اس وقت سائیکل کی 75سے 85روپے تک تھی بعد ازاں اس کی قیمت بڑھتی گئی اور اب اس کی قیمت آٹھ ہزار روپے تک پہنچ چکی تھی۔
بشیر احمد دیپالپور میں گزشتہ چالیس سال سےسائیکل کو مرمت اور ٹائروں کو پنکچر لگانے کا کام کرتا رہاہے مگر اب اس نے سائیکل کے ناپید ہونے کی وجہ سے سائیکل کاکام تقریباََ ترک کردیا ہے اور اس کی جگہ اس نے موٹرسائیکلوں کا سپیئر پارٹ اور آئل فروخت کرنا شروع کردیا ہے سائیکل کے بارے میں پرانی یادیں تازہ کرتے ہوئے بشیر احمد نے کہا کہ ستر کی دہائی سائیکل کے عروج کی دہائی تھی شروع شروع میں سائیکل پاکستان میں نہیں بنتا تھا حکومت باہر سے سائیکل منگواتی تھی اور اس وقت phonix,humber,relayمشہور سائیکل تھے بعد میں یہ سائیکل پاکستان میں بھی بننے لگا پاکستانی سائیکلوں میں رستم،ایگل اور سہراب بہت مضبوط اور پائیدار سائیکل تھے۔
awami sawari
عبدالغفور محکمہ تعلیم میں ملازم ہے اور روزانہ تیس کلومیٹر سائیکل پر طے کر کے اپنے دفتر جاتا ہے جب ہم نے اس سے پوچھا کہ آپ نے سواری کیلئےمتبادل ذریعہ کیوں اختیار نہیں کیا تو اس کا جواب بڑا دلچسپ تھا
”جناب سائیکل کی سواری کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس پر بیٹھے ہوئے بندہ خود کو بہت ریلکیس محسوس کرتا ہے نہ تیل کا خرچہ نہ چالان کا غم چلی جارہی ہے گاڑی ڈما ڈم دماڈم”
اوکاڑہ میں سائیکل مرمت کا کام کرنے والے ایک اور مستری مقبول احمد نے اس سوال کے جواب میں کہ وہ اب سائیکل مرمت سے کتنے کمالیتا ہے تو اس کا کہنا تھا کہ
” سائیکل کے عروج کے دنوں میں ہم پر بھی عروج تھا مگر جیسے جیسے سائیکل کی سواری ختم ہو گئی اور اس کی جگہ موٹر سائیکل نے لے لی تو ہم پر بھی زوال آتا گیا ایک وہ وقت تھا کہ میرے پاس لوگ سائیکل مرمت کیلئے رکھ جاتے تھے اور ہفتوں ان کی باری نہیں آتی تھی اور اب یہ عالم ہے کہ ہفتوں ہفتوں کوئی گاہک ہی نہیں آتا”
مقبول نے بتایا کہ شہر میں سائیکل مرمت کرنیوالی جتنی دوکانیں تھیں سب نے موٹرسائیکل کی بہتات کے بعد خود کو بھی اسی سانچے میں ڈھال لیا ہے مگر میں اس کو نہیں چھوڑ سکتا کہ کیوں اب میں سائیکل مرمت روزگار کیلئے نہیں محض شوق کی وجہ سے کرتا ہوں کیوں کہ میرے بچے اب بہترین روزگار کمارہے ہیں اس لئے مجھے کوئی معاشی مسئلہ نہیں ہے ورنہ اب سائیکل کی کمائی تو دو سے تین ہزار بھی نہیں رہ گئی ۔

مقبول احمد کے مطابق سائیکل کی سواری کے کم ہونے کی دو بڑی وجوہات ہیں ایک جلد بازی ہے جس کے باعث ہر بندہ جلد از جلد اپنا کام نمٹانا چاہتا ہے اور اس کیلئے تیز سواری کی ضرورت ہوتی ہے اور دوسری وجہ سٹیٹس کو بھی سڑکوں کو رواں دواں بڑی بڑی گاڑیوں کے درمیان اب لوگ سائیکل چلانا اپنی بے عزتی محسوس کرتے ہیں۔
اجمل نامی ایک نوجوان جو پہلے سائیکل چلاتا تھا مگر اب اس نے موٹر سائیکل خرید لی ہے جب میں نے اس تبدیلی کی وجہ پوچھی تو اس نے کہا کہ پہلے وہ شہر میں کام کرتا تھا مگر اب اس کو پاکپتن میں جاب ملی ہے تو وقت کی بچت کیلئے موٹرسائیکل خریدنا پڑی تا ٹائم پر دفتر پہنچ سکوں لیکن اس نے یہ بھی کہا کہ جو مزا سائیکل کی سواری میں تھا وہ موٹرسائیکل میں نہیں موٹرسائیکل کی مرمت بہت مہنگی ہوتی ہے پٹرول کا خرچہ ہوتا ہے اور آئے روز کے چالان جب میرے لئے سردرد بنتے ہیں تو سائیکل کی بہت یاد آتی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں