قلعہ بھومن شاہ کی دلچسپ تاریخ کے بارے میں جانئے
تحریر:امتیاز احمد وٹو…
اگر آپ ضلع اوکاڑہ میں حویلی لکھا دیپالپور روڈ سے گزریں تو دیپالپور سے 22 کلومیٹر کے فاصلے پر دیپالپور روڈ پر آپ کو ایک قلعہ نما عمارت نظر آئے گی جسے قلعہ بھومن شاہ کہتے ہیں۔بابا بھومن شاہ 14 اپریل 1687 کو دیپالپور کے نواحی علاقے گاؤں بہلولپور میں پیدا ہوئے۔بابا بھومن شاہ سکھوں کے روحانی پیشوا تھے جن کو بھومیا بھی کہا جاتا تھا۔
بھومن شاہ کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ سکھوں کے روحانی پیشوا بابا گرو نانک دیو جی کے بڑے بیٹے بابا شری چندر مہاراج کے شاگرد تھے۔
والدین کی اجازت سے 15 سال کی عمر میں بھومن شاہ پاکپتن میں مشہور سادھو پریتم داس کے پاس چلے گئے اور گرو مانترا کا علم سیکھا۔ان کے والد چوہدری ہاسا رام بہاولپور کے نمبردار تھے اور زمیندار تھے جو کہ بعد میں دیپالپور کے علاقے قطب کوٹ منتقل ہو گئے۔بھومن شاہ مسلمان، سکھ اورہندو سب میں بڑی عقیدت کی نگاہ سے دیکھتے جاتےتھے، قطب کوٹ میں بھومن شاہ نے ایک لنگر خانہ کھول جہاں ہر وقت سادھوؤں کا تانتا بندھا رہتا۔
ان دنوں قطب کوٹ لکھا وٹو نامی جاگیردار کی ملکیت تھا جو کہ ہزاروں ایکڑ کا مالک تھا۔
روایت ہے کہ لکھا وٹو کو گورنر پنجاب کے حکم پر گرفتار کر کے لاہور جیل میں بند کر دیا گیا، تو لکھا وٹو کی والدہ بختاور بی بی بھومن شاہ کے پاس آئی اور التجا کی کہ ان کےبیٹے کی رہائی کی دعا کریں۔
چند دن بعد لکھا وٹو رہا ہو کر آیا تو وٹو قبیلے نے قطب کوٹ بھومن شاہ کے حوالے کر دیا، بعض مورخین کا کہنا ہے کہ لکھے وٹو نے پانچ ہزار سے زائد ایکڑ زمین بھومن شاہ کے لنگر خانے کے لیے دان کی اور خود وہاں سے منتقل ہو کر موجودہ حویلی لکھا ڈیرہ جما لیا۔
آہستہ آہستہ قطب کوٹ بھومن شاہ کے نام سے مشہور ہو گیا، بھومن شاہ نے مسافروں اور سادھوؤں کے لیے رہائش اور لنگر خانے کا اہتمام کیا اور قطب کوٹ کو ایک قلعے کی شکل میں تعمیر کروایا۔
بابا بھومن شاہ 1762 میں انتقال کر گئے اور ان کی گدی مہنت نرمن چند نے سنبھال لی۔
بھومن شاہ کے چھٹے گدی نشین مہنت بابا درشن داس کے دور میں برٹش ڈویژنل کمشنر نے بھومن شاہ کا دورہ کیا اور لنگر خانے سے متاثر ہو کر 3000 ایکڑ سرکاری اراضی لنگر خانے کے لیے وقف کر دی جو کہ بعض مورخین لکھتے ہیں کہ ایک وقت تھا کہ لنگر خانے کی اراضی 18 ہزار ایکڑ ہو گئی تھی۔
پاکستان بننے کے بعد ڈیرے کے مکھ سیوا دار مہنت گردھاری داس نے لنگر خانہ بھارت میں منتقل کر دیا اور ہریا کے علاقے سرسا میں نیا ڈیرہ بنا لیا۔
1947 کے بعد قلعہ اور اراضی محکمہ اوقاف کے قبضے میں آگئی اور قلعے کی عمارت پر مہاجرین اور مقامی افراد نے قبضہ جما لیا اور وقت کے ساتھ ساتھ قلعے کی رونقیں ماند پڑ گئیں۔
لنگر خانے کی پانچ ہزار سے زائد ایکڑ مختص اراضی محکمہ اوقاف نے مقامی کسانوں کو دے رکھی ہے جس کا سالانہ ٹھیکہ صرف 3500 روپے ہے۔محکمہ آثار قدیمہ کی عدم توجہ کی وجہ سے قلعہ میں موجود نقش و نگار اور قیمتی پتھر اپنا حسن کھوتے جا رہے ہیں۔جس طرف حکومت وقت اگر تھوڑی سی توجہ دے تو یہ قلعہ غیر ملکی سیاحوں کیلئے اپنے اندر بہت کشش رکھتا ہے.
بشکریہ تم بھی بولوڈاٹ کام
http://tumbhibolo.com.pk/archives/3274