لینڈریکارڈ سنٹرآفیشلزکے مسائل،حکومتی بے حسی اوربیچاری عوام
تحریر:قاسم علی…
عام طور پر دیکھنے میں یہی آتا ہے کہ سرکاری ملازمت کے خواب ہر کوئی دیکھتا ہے مگر بعض اوقات یہی سرکاری ملازمت حکومتی عدم توجہ اور بدنظمی کی وجہ سے مصیبت بھی بن جایا کرتی ہے۔اراضی ریکارڈ سنٹر آفیشلزکی ملازمت بھی کچھ ایسی ہی معلوم ہورہی ہے۔آگے بڑھنے سے پہلے ہم آپ کو یہ بتاتے چلیں کہ حکومت کی جانب سے زراضی ریکارڈ کو جدید تقاضوں کے مطابق محفوظ کرنے کیلئے 2012ء میں کمپیوٹرائزڈ لینڈریکارڈ سنٹرز قائم کئے گئےجن کا مقصد عوام کی جائیدادوں کے ریکارڈ کو زیادہ بہتر انداز میں منظم رکھنا اور انتقالات و نقولات کی بروقت فراہمی ہے.
حکومت کی جانب سے ابتدائی طورپرتحصیلوں کی سطح پر152اراضی ریکارڈ سنٹرز بنائے گئے تھے جبکہ اب پنجاب لینداتھارٹی اس سسٹم کو مزید وسیع کرنے کے منصوبے پر عملدرآمد کا آغاز کرنے جارہی ہے جس کے مطابق ہرقانونگوئی میں الگ اراضی ریکارڈ سنٹر بنایا جائے گا۔لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ حکومت ایک طرف اس نظام کو توسیع دینے کے منصوبے بنارہی ہے جبکہ دوسری طرف پہلے سے اس سسٹم کے تحت ملازمت کرنے والے ہزاروں ملازمین حکومتی پالیسیوں سے نالاں نظر آتے ہیں اور اب آخرکارتنگ آکر انہوں نے احتجاج کا رستہ اختیار کرلیا.اب اگرچہ حکام بالا کے کی جانب سے کئے جانے والے نئے وعدوں کے بعد ختم کردیا گیا ہے تاہم اوکاڑہ ڈائری ملازمین کے احتجاج کی وجوہات اور اس سے عوام پیش آنیوالی مشکلات بارے آپ کو ایک بار پھر آگاہ کررہی ہے۔
ملازمین کا کہنا ہے کہ 2012ء سے ابتک جو ملازمین اس ادارے کیساتھ وابستہ ہیں ان میں سے اکثر کی عمریں تیس سال سے زیادہ ہوچکی ہیں اور اس کے بعد وہ کسی اورسرکاری ادارے میں بھی جاب کرنے کے اہل نہیں ہیں جبکہ یہاں بھی تاحال وہ ریگولر نہیں ہوئے جو کہ ایک تکلیف دہ احساس ہے۔اس لئے بہت ضروری ہے کہ حکومت تمام ملازمین کو مستقل کرنے کی خوشخبری سنائے تاکہ وہ اپنے مستقبل بارے فکرمند ہونے کی بجائے پوری توجہ اور اطمنان کیساتھ اپنے کام پر دھیان دیں۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومت ہر سال ملازمین کی تنخواہوں میں کچھ اضافہ کرتی ہے لیکن لینڈریکارڈ سنٹرز کے ملازمین کیساتھ یہاں بھی گزشتہ تین سال سے ستم کیا جارہاہے کہ تین سال سے ان کی تنخواہوں میں ایک روپے کا بھی اضافہ نہیں کیا جارہاہے۔
یادرہے لینڈریکارڈ اتھارٹی کے تحت بطور سروس سنٹرآفیشلز جاب کرنے والے ملازمین حکومتی عدم توجہی کے باعث پہلے بھی متعدد بار علامتی احتجاج کرچکے ہیں تاہم اب کی بار پنجاب بھر کے پندرہ سو سے زائدسروس سنٹرآفیشلز پنجاب اسمبلی کے سامنے اپنے مطالبات کیلئے سراپا احتجاج ہیں۔اس احتجاج میں اوکاڑہ،دیپالپور اور رینالہ خوردکے پچاس ملازمین بھی شامل ہیں جنہوں نے اوکاڑہ ڈائری سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ہم 2012ء سے لینڈ ریکارڈ اتھارٹی میں سروس سنٹرآفیشلز کی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں ۔لیکن افسوس کہ اراضی کو کمپیوٹرائزڈ کرنے کے حکومتی منصوبے کوسات سال تک کامیابی سے چلانے والوں کوآج بھی اپنا مستقبل مخدوش نظرآرہاہےاور ہم سروس سٹرکچر کی فراہمی،میڈیکل سہولیات ،انتقالات و نقولات پر کمیشن اورتنخواہوں میں اضافےسمیت اپنے دیگرجائزمطالبات کیلئےآج بھی سڑکوں پر ہیں.
اسی ضمن میں ہم اوکاڑہ ڈائری کے قارئین کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ اراضی ریکارڈ سنٹرز میں دوردراز سے آنیوالے سائلین انتہائی مشکلات سے دوچار رہے۔حویلی لکھاسے آنیوالے محمداشرف نامی ایک سائل کا کہنا تھا کہ وہ تیس کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے ایک انتقال درج کروانا ہے مگر اراضی ریکارڈ سنٹر پر لگے تالے لگے ہوئے ہیں۔ملازمین کا حق ہے کہ وہ احتجاج کریں مگر ہمارا اس میں کیا قصور ہے ۔ایک اور معمر بزرگ سائل اللہ دتہ نے بتایا کہ اس نے اپنے بیٹے کی ضمانت کروانی ہے اور اس کیلئے مجھے فرد کی ضرورت ہے لیکن چار روز سے وہ خوار ہورہاہے میری فیملی انتہائی کرب سے گزررہی ہے جبکہ اراضی ریکارڈ سنٹر کا عملہ لاہور میں احتجاج پر ہے۔باباجی نے کہا کہ میں بزرگ ہونے کیساتھ ساتھ انتہائی غریب بھی ہوں اور مجھے روزانہ دفتر کے چکر لگانے پڑرہے ہیں اراضی ریکارڈ سنٹر والے جلد اپنا احتجاج ریکارڈ کروا کر واپس آئیں تاکہ سائلین ذلیل وخوار نہ ہوں۔اراضی ریکارڈ سنٹر سے مایوس لوٹنے والی ایک خاتون نے کہا کہ وہ اسلام آبادمیں ملازمت کرتی ہے اور اب چھٹی لے کر صرف اپنے مکان کے انتقال کیلئے آئی ہے لیکن دفتر میں تالہ بندی ہے جس کی وجہ سے میرے مکان کا سودا خطرے میں پڑسکتا ہے اس کا ذمہ دار کون ہوگا۔
سیدطاہربلال شاہ ایک سماجی کارکن ہیں ان کا کہنا تھا کہ دیپالپور کے اراضی ریکارڈ سنٹر میں دیپالپور کے 549دیہاتوں کا ریکارڈ کمپوٹرائزڈ کیا گیا ہے اگر ہم ایک گاؤں سے ایک سائل بھی تصور کرلیں تو روزانہ پانچ سو سے زائد سائلین یہاں پر آتے ہیں لیکن انہیں مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس طرح عوام کو تو مشکل ہوتی ہی ہے ساتھ میں اس بے پناہ رش کی وجہ سے اراضی ریکارڈ سنٹر سے ملحقہ دیگر دفاتر کے سائلین میں بھی بڑے مسائل پیدا ہوتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس قدر رش کی وجہ سے سیکیورٹی پرابلمز بھی ہوتی ہیں اور کسی بھی وقت کوئی بڑا حادثہ رونما ہوسکتا ہے۔
حکومت کی ناقص پالیسیوں اور بدانتظامی کے باعث آئے روز مختلف محکموں کی جانب سے ایسے احتجاج دیکھنے میں آتے رہتے ہیں جن سے عوام کو انتہائی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ اراضی ریکارڈ سنٹر ملازمین کافی عرصہ سے احتجاج کررہے ہیں حکومت کو چاہئے تھا کہ اس نوبت تک پہنچنے سے قبل ہی اس مسئلے کو مزاکرات کے ذریعے حل کرلیا جاتااور نوبت یہاں تک نہ پہنچتی انہوں نے تجویز دی کہ جن دفاتر میں احتجاج ہوتا ہے وہاں احتجاج کی صورت میں بھی چند ملازمین موجود رہنے چاہئیں جو عوام کا کام کرتے رہیں اور باقی ملازمین احتجاج بھی کرتے رہیں اس طرح عوام کو بھی مشکل پیش نہیں آئے گی اور احتجاج بھی ریکارڈ ہوجایا کرے گا۔