تحریر:قاسم علی…
“نہیں جی ہمیں کوئی چھٹی نہیں ہوتی اور نہ ہی ہم نے کبھی چھٹی کی ہے، ہمیں تو یہ پتہ ہے کہ آج کی دیہاڑی کما کر گھر جائیں گے تو بچوں کو بھر پیٹ کھانا کھلا سکیں گے ورنہ رات کو خالی پیٹ سو کر بچے صبح ٹھیک سے کام نہیں کرتے۔”یہ کہنا تھا منظوراں بی بی کا جب ان سے مزدورں کے عالمی دن کے حوالے سے بات کی گئی۔منظوراں کی عمر چالیس سال ہے اور اس کے سات بچے ہیں۔ خاوند بیمار ہے اور محنت مزدوری نہیں کر سکتا لیکن ماں کے ساتھ سب سے چھوٹے بیٹے کو چھوڑ کر باقی سبھی بچے کھیتوں میں کام کرتے ہیں۔مکئی کا سیزن ہو یا گندم کا سال کے بارہ ماہ منظوراں کھیتوں میں محنت مزدوری کر کے گھر کا چولھا جلانے کے ساتھ ساتھ بیمار خاوند کی تیمار داری بھی کرتی ہے۔وہ بتاتی ہیں کہ شادی کے بائیس سال انہوں نے مزدوری میں ہی گزار دیے لیکن سوائے تین وقت کے کھانے کے وہ اور کچھ نہیں حاصل کر سکی۔”زمیندار ہر سال اپنی فصلوں کی کمائی سے امیر سے امیر تر ہوتا چلا گیا مگر ہم نسل در نسل وہیں کھڑے ہیں جہاں آج سے بائیس سال پہلے کھڑے تھے۔ بس فرق اتنا ہے کہ اب میرے بچے بھی میرے ساتھ مزدوری کرتے ہیں۔” آج کے مزدور کی تنخواہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہے جبکہ اس میں حکومت کے ساتھ ساتھ زیادہ قصور ہمارا بھی ہے۔ “وسیم شاہد”ہر سال یکم مئی کو دنیا بھر کے 80 سے زائد ملکوں میں مزدروں کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس میں سوائے مزدوروں کے تمام سرکاری و غیر سرکاری دفاتر و اداروں میں عام تعطیل ہوتی ہے۔اس دن کا آغاز 1886ء میں ہوا جب چار مئی کو شگاگو کے مزدوروں نے اپنے کام کے اوقات متعین کرنے کے لیے کام چھوڑ ہڑتال کی۔مزدوروں کا جلوس شگاگو کی سڑکوں پر اپنی آواز بلند کیے رواں دواں تھا لیکن تبھی ہجوم میں ایک بم پھٹا اور پولیس کی جانب سے فائرنگ شروع ہو گئی جس میں کئی مزدور اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔اس سانحہ میں شگاگو کے مزدور تو ابدی نیند سو گئے لیکن ان کی قربانی رنگ لے آئی اور مزدور کے کام کرنے کا دورانیہ آٹھ گھنٹے مختص کر دیا گیا اور 1891ء سے دنیائے ممالک کی جانب سے یکم مئی کو دنیا بھر کے مزدوروں کو خراج تحسین پیش کیا جانے لگا۔اس تاریخی واقعہ میں شگاگو کے مزدوروں نے تو اپنے حقوق حاصل کر لیے لیکن پاکستان میں تاحال مزدور اپنے حقوق اور اس دن کی تاریخ سے ناواقف ہیں اور یکم مئی کی عالمی چھٹی پر بھی روزی روٹی کی تلاش میں نکلے ہوئے ہیں۔
مئی کی سخت گرمی میں کھیتوں میں کام کرتے مزدور محمد لیاقت سے جب یہ پوچھا گیا کہ اس کے کام کا دورانیہ کیا ہے تو اس کا کہنا تھا کہ کام کے کوئی مخصوص اوقات نہیں ہیں جب مالک کام دے تبھی کرنا پڑتا ہے اس میں رات دن کی بھی گنجائش نہیں ہے۔ان کا کہنا تھا کہ دیہاڑی دار مزدور بھلے آٹھ گھنٹے کام کرتا ہو مگر کھیتوں میں کام کرنے والے مزدرو کا کوئی شیڈول نہیں ہوتا۔حجرہ شاہ مقیم کے رہائشی محمد ریاض نے اوکاڑہ ڈائری کو بتایا کہ ایک حادثے میں ان کا ایک ہاتھ ضائع ہو گیا لیکن اس کے باوجود وہ کھیتوں میں پانی لگانے کا کام کرتے ہیں کیونکہ گھر فارغ بیٹھے رہنے سے ان کے گھر کا چولھا نہیں جلتا۔انہوں نے بتایا کہ بیشمار لوگ معذوری کے باوجود بھیک مانگنے پر مزدوری کرنے کو ترجیح دیتے ہیں مگر انہیں اس وقت بڑی مایوسی ہوتی ہے جب انتہائی مشقت کے باوجود انہیں اتنی مزدوری بھی نہیں مل پاتی کہ وہ گھر کے راشن کے علاوہ خوشحالی کی کوئی اور راہ سوچ سکیں۔
مستری محمد علی گزشتہ پچاس سالوں سے مزدوری کے پیشے سے وابستہ ہیں۔جب ان سے لیبر ڈے کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ وہ تو کولہو کے بیل کی طرح مسلسل پچاس سالوں سے روزانہ صبح آٹھ سے شام پانچ بجے تک اپنی مزدوری کر رہے ہیں لیکن اس دوران نہ تو ان کے حالات بدلے ہیں اور نہ ہی حکمرانوں کی روش بدلی ہے۔ایک ہاتھ میں اینٹ اور ایک ہاتھ میں کانڈی (اوزار) پکڑے محمد علی نے بات ختم کرتے ہوئے بتایا کہ وہ تو کل بھی مزدور تھے اور آج بھی مزدور ہیں۔گورنمنٹ کالج کے پروفیسر وسیم شاہد مزدوروں کے عالمی دن پر بات کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ موجودہ مہنگائی کو دیکھتے ہوئے آج کے مزدور کی تنخواہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہے جبکہ اس میں حکومت کے ساتھ ساتھ زیادہ قصور ہمارا بھی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ گھریلو ملازمین، ورکشاپس اور دکانوں پر کام کرنے والے ملازم بھی کم تنخواہ اور حقوق سلب ہونے کا رونا روتے ہیں جن پر سنجیدگی سے غور کرنا ہماری سماجی ذمہ داری ہے۔”یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اپنے خون، پسینے اور محنت سے دنیا بھر میں دیوقامت عماراتی تعمیر اور بڑے بڑے برج بنا کر ملکی معیشت کو سونا بنانے والا مزدور خود اپنی زندگی میں ہمیشہ خوشحالی کے خواب ہی بنتا رہ جاتا ہے۔”
