338

مسٹر کلرفل شوکت علی قریشی کی چند یادیں

تحریر:قاسم علی

کبھی بطور سیاسی ورکراپنی پارٹی کیلئے،کبھی بطور سپورٹس میں سپورٹس کی فلاح و بہبود کیلئے اوربطور وکیل قانون کی بالادستی کیلئے اٹھنے والی موثر اور بلند آواز ہمیشہ کیلئے بند ہوگئی۔بہت پیارے انسان شوکت علی قریشی کا دنیا سے جانا نہ صرف دیپالپور بار بلکہ پورے شہر کیلئے ایک افسردہ کردینے والی خبر تھی۔کیوں کہ شوکت علی قریشی کو اللہ نے یہ ملکہ دے رکھا تھا کہ وہ جس بھی انسان سے ایک بار ملتے اپنے مخصوص انداز گفتگو کی بدولت وہ لمحہ اس انسان کیلئے یادگار بنا دیتے تھے۔

شوکت علی قریشی ایک انتہائی محنتی اور سرگرم انسان تھے جن کے اندر ہر وقت سوسائٹی کی بہتری کیلئے کچھ کرنے کی لگن نظر آتی تھی۔

خاص طور پر دیپالپور میں کھیل کے میدانوں کی ویرانی پر وہ بہت رنجیدہ تھے اور ہمہ وقت کوشاں رہتے تھے کہ دیپالپور میں حویلی روڈ پر موجود سٹیڈیم کو جدید طرز پر تعمیر کر کے یہاں پر تمام کھیلوں کو فروغ دیا جا سکے۔

 

2001ء میں انہوں نے ایل ایل بی مکمل کر کے دیپالپور بار ایسوسی ایشن میں شمولیت اختیار کی یہاں پر بھی عوام کو انصاف کی فراہمی اور آئین وقانون کی سربلندی کیلئے کوشاں رہے۔  شوکت علی قریشی ایک ہنس مکھ اور صاف دل شخصیت تھے جو ہر جونیئر سے پیار اور ہر سینئر کا احترام کرتے تھے۔اپنی منفرد طبیعت کے باعث انہیں دیپالپور کورٹس میں مسٹرکلرفل بھی کہا جاتا تھا.

 

سیاست کے میدان میں دیکھا جائے تو یہاں پر بھی ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔دیپالپور میں پاکستان تحریک انصاف کا پرچم بلند کرنیوالے اولین ناموں میں ان کا نام سرفہرست آتا ہے اورایک ایسے وقت میں جب دیپالپور میں کوئی پاکستان تحریک انصاف کو جانتا تک نہ تھا اس وقت شوکت علی قریشی کی دعوت پر 1996ء میں موجودہ وزیراعظم عمران خان نے دیپالپور کا وزٹ کیا تھا۔ لیکن اس کیساتھ ہی ان کو شکوہ تھا کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران پارٹی میں شامل ہونیوالوں نے نہ صرف ان سمیت نظریاتی ورکرز کو نظر انداز کیا بلکہ پی ٹی آئی ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں چلی گئی جن کی آنکھوں میں انہیں تحریک انصاف کی جھلک بالکل نظر نہیں آتی۔

شوکت علی قریشی شوگر اور بلڈپریشر جیسی امراض میں مبتلا تھے لیکن اس کے باوجود نہ تو ان کی طبیعت میں تھکاوٹ کے اثرات نظر آتے تھے اور نہ ہی انہیں کبھی غصے کی حالت میں دیکھا گیا ان کے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ،شائستگی اور اپنائیت ہوتی تھی۔

لیکن جیسا کہ قانون قدرت ہے ہر جان کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔شوکت علی قریشی بھی پندرہ مارچ کو اس دارفانی سے کوچ کر گئے۔شام کے وقت ان کو پڑنے والا دل کا دورہ جان لیوا ثابت ہوا۔اس طرح ایک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا۔اللہ ان کی مغفرت فرمائے ان کی قبر کو روشن فرمائے۔

ان کی یادوں اور باتوں پر مشتمل یہ وڈیو آپ کے دل میں ہمیشہ زندہ رکھے گی۔ضرور دیکھئے

https://youtu.be/eMzYZJV2pW4

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں