915

ملئے تین صدیاں دیکھنے والے بابا اکبر سے

تحریر:قاسم علی
گزشتہ دنوں ایک اخبار میں ایک خبر میری نظر سے گزری کہ دنیا کا طویل ترین عمر رکھنے والا شخص 118برس کی عمر میں فوت ہوگیا تو میں نے اس خبر کو فیس بک پر اپ لوڈ کردیا مگر کچھ ہی دیر بعد مجھے اس پوسٹ پرنسیم وٹو کی جانب سے کمنٹ ملا کہ ہمارے گاؤں میں اس سے بھی طویل عمر کا شخص موجود ہے تو مجھے اس سے ملنے کا بڑا تجسس ہوا اور پہلی فرصت میں ہی اپنے دوست دیوان محسن کیساتھ وہاں جا پہنچا یہ دیپالپور کے ایک گاؤں لالو پور کی ایک چھوٹی سے ڈھاری تھی میرا خیال تھا کہ باباجی بستر پر پڑے ہوں گے اور ان سے بات چیت کرنابھی شائد اتنا آسان نہ ہومگر میری حیرت کی اس وقت کوئی انتہا نہ رہی جب اکبر نامی وہ بزرگ اپنے قدموں سے بالکل نارمل انداز میں چلتا ہوا ہمارے پاس آن کھڑا ہوا اور دوران گفتگو مجھے بخوبی پتا چل گیا کہ اس کی بصارت کیساتھ ساتھ اس کی سماعت بھی بالکل ٹھیک ہے اور اس کی یادداشت توآج بھی بہت زبردست تھی ۔
بابا جی آپ کی طویل العمری اور اس قدر صحتمندی کا راز کیا ہے ؟ میں نے پہلا سوال ہی یہ داغ ڈالاجس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ
میں نشہ نہیں کرتا سادہ غذا اور سادہ طرز زندگی پسند کرتا ہوں کسی سے حسد کرکے خود کو نہیں جلاتااپنے کام سے کام رکھتا ہوں اور یہی میری صحتمندی اور طویل العمری کا رازبھی ہوسکتا ہے
اپنی اولاد کے بارے میں بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ
ان کے تین بیٹے اور ایک بیٹی ہیں جو کہ تمام زندہ سلامت ہیں اور آگے ان کے بھی بیسیوں پوتے اور نواسے ہیں
میرے خاندان میں ویسے ہی طویل عمر چلی آرہی ہے میرے والد اور دادا نے بھی سوسال سے زائد عمر پائی اور اب میری اولاد بھی اسی سال کی عمر کو پہنچ چکی ہے ۔
بابا اکبر نے ماضی کے جھروکوں میں جھانکتے ہوئے بتایا کہ
ہمارے وقتوں میں سفری سہولیات نہ ہونے کے برابر تھیں صرف تانگہ ایک بڑی اور قابل ذکرسواری تھی لوگ عموماََ پیدل ہی چلا کرتے تھے خود میری شادی پر میری بارات بیس کوس پیدل چل کر گئی تھی پیدل چلنے اور خالص خوراک کھانے کی وجہ سے بیماریوں کا نام و نشان تک نہ تھا جس وقت سے گاڑیاں ہماری زندگی میں آئیں لوگ سہل پسندی کا شکار ہوگئے ہیں ان کا کہنا تھا کہ نت نئی ایجادات نے انسان کو کمزور ،سہل پسند اور بیماریوں کا گڑھ بنادیا ہے پہلے ہم مکھن اور باسی روٹی کھاتے تھے اور لسی پیتے تھے اب اس کی جگہ سلائس اور چائے نے لے لی ،فریج کی بجائے ہم تازہ پانی پیتے تھے ،اے سی روم کی بجائے درختوں کی صحت افزا فضاؤں میں بیٹھتے تھے ،روکھی سوکھی کھاکر مشقت کرتے تھے اب برگر ،پیزا،کڑاہی اور شوارما کھاکر لوگ سوجاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ لوگوں کی عمریں کم ہوگئی ہیں دواخانے بڑھ گئے ہیں ۔
اس وقت تھانے کچہری نہیں تھے تو لڑائی جھگڑے کے واقعات بھی خال خال ہی ہوتے تھے ایسا کوئی واقعہ ہوتا بھی تھا تواس کو گاؤں کا سردار یا سرپنچ ہی ختم کروادیتا تھا جب سے تھانہ کچہری قائم ہوئی ہے تب سے فساد بھی بڑھ گیا ہے ۔
قیام پاکستان کے دوران کی اپنی یادیں تازہ کرتے ہوئے باباجی کا کہنا تھا کہ
قیام پاکستان کے وقت ان کی عمر پچاس کے لگ بھگ تھی اور ان کا دوسرا بیٹا لیاقت تین سال کا تھا وہ شروع سے یہاں کے ہی رہنے والے ہیں ہمارے علاقے میں چند ہندو تھے جو تقسیم کے بعدیہاں سے تو پر امن طریقے سے یہاں سے ہندوستان چلے گئے لیکن بعد میں پتا چلا کہ ان میں سے کئی لوگ بھارت پہنچنے سے پہلے ہندومسلم فسادات کا شکارہوگئے انہوں نے کہا کہ دوران تقسیم صرف مسلمانوں پر ظلم کی بات غلط ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان سے ہندوستان جانیوالے ہندوؤں کو بھی اپنی جانوں اور مال اسباب سے محروم ہونا پڑا اور اس وقت کی لوٹ مارکی چیزیں اب بھی کئی پاکستانیوں کے گھروں میں ہیں اور وہ لوگ بڑے فخر سے اپنی اولاد کو بتاتے ہیں کہ یہ چیز ہم نے ہندوؤں سے چھینی تھی۔
بابا اکبر نے بتایا کہ پاکستان کا قیام اس صدی کا بڑا کارنامہ ہے مگر اتنی بڑی تعداد میں انسان جانوں کے ضیاع کا ذمہ دار کون ہے اس کا تعین کون کرے گا ؟ کیا اس کی ذمہ داری انگریزوں کی ناعقبت اندیشی اور غیرمنصفانہ تقسیم پر عائد ہوتی ہے،ہندوؤں پر یا مسلمانوں کے ہاتھ پر اس کا خون ہے ؟ بابا اکبر کہتا ہے کہ تقسیم کا فائدہ ہو ایا نقصان اس سے قطعہ نظر ایک بات سچ ہے کہ متحدہ ہندوستان میں انگریز کے وقت قانون کی عملداری اور جتنا امن تھا اتنا پاکستان بننے کے بعد نہ ہندوستان میں رہانہ ہی پاکستان میں ہے۔
اپنے پسندیدہ حکمران بارے انہوں نے کہا کہ انہیں صدرایوب بہت پسند تھے کیوں کہ ان کے دور میں مہنگائی نہیں تھی اس کا دور امن اور خوشحالی کا دور تھااس کے بعد جتنے بھی حکمران آئے سب اپنا پیٹ ہی بھرتے رہے ہیں کسی کو عوام کی پرواہ نہیں کہ وہ کس حال میں ہے ۔
بابااکبر نے بتایا کہ وہ کبھی بھی محنت سے جی نہیں چراتے انہوں نے سوسال کی عمر تک محنت مزدوری کی ہے اس کے بعد چھوڑ دی اس کے علاوہ ان کے پاس پھلرون کمبوہ کی چوکیداری بھی ہے اور اس علاقے میں فوتگی اور پیدائش کا ریکارڈ آج بھی وہی لکھتے ہیں ۔
انہوں نے بتایا کہ میں نے اپنی زندگی میں بیشمار اموات دیکھی ہیں مگر مجھے پہلوان نامی اپنے ایک دوست کی وفات کا سب سے زیادہ دکھ ہے جس کو تپ دق ہوا تھا اور وہ بچ نہ سکا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں