تحریر:قاسم علی..
میاں منظور احمدوٹو ملکی سیاست کا ایک بڑا نام ہے جن کی سیاست چالیس سال سے زائد عرصہ پر محیط ہے ۔1977ء میں ذولفقار علی بھٹو نے ان کو پیپلز پارٹی کا ٹکٹ دیا مگر بعد ازاں یہ ٹکٹ ان سے واپس لے کر غلام محمدمانیکا کو دیدیا گیاجس پر میاں منظور احمد وٹو نے آزاد حیثیت سے یہ الیکشن لڑا اور ہارگئے ۔اس کے بعد میاں منظور احمدوٹو ائرمارشل اصغرخان کی تحریک استقلال میں شامل ہوگئے ۔1982ء میں ہونیوالے غیرجماعتی انتخابات میں میاں صاحب جیت کر ممبر ضلع کونسل بن گئے ان دنوں ساہیوال ضلع تھا مگر ان کے ممبر ضلع کونسل بننے کے ایک سال بعد1983میں اوکاڑہ کو بھی ضلع کی حیثیت مل گئی اور اس کیساتھ ہی میاں منظور احمد وٹو چیئرمین ضلع کونسل بھی بن گئے ۔اس کے بعد 1985ء کے انتخابات میں صوبائی اسمبلی کا الیکشن جیتنے کے بعد منظور احمدوٹو ایم پی اے بن گئے یوں اس وقت ان کے پاس ضلع کونسل کی چیئرمینی بھی تھی اور ممبر صوبائی اسمبلی بھی تھے اور یہی نہیں اسی برس میاں منظور احمدوٹو سپییکرصوبائی اسمبلی بھی بن گئے جس پر انہوں نے ضلع کونسل کی چیئرمین شپ چھوڑ دی اور انہی کے بھائی میاں احمدشجاع چیئرمین ضلع کونسل بن گئے ۔اس کے بعد 1988ء میں بھی میاں منظور وٹوپر قسمت مہربان ہوئی اور وہ پہلے ایم پی اے بنے اور پھر سپیکر بنجاب اسمبلی بھی بن گئے ۔1990ء کے انتخابات میں وٹو صاحب ایم این اے بھی بن گئے اور حویلی لکھا سے ایم پی اے بھی بن گئے ۔تاہم انہوں نے پارٹی کے کہنے پرایم این اے کی سیٹ چھوڑدی جس پرراؤقیصرایم این اے منتخب ہوگئے اورخود ایم پی اے کی بنا پر تیسری مرتبہ پھر سپیکرپنجاب اسمبلی بن گئے ۔
ابھی انہی کی حکومت تھی کہ 1993ء میں وزیراعلیٰ پنجاب غلام حیدروائیں کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو کامیاب کروا کر میاں منظور احمدوٹو خود وزیراعلیٰ پنجاب بن گئے تو اس وقت کے صدر غلام اسحٰق کان نے اسمبلیاں تحلیل کردیں اس طرح منظور احمدوٹو کی وزارت اعلیٰ بھی ختم ہوگئی ۔مگر اس اقدام پرغلام حیدروائیں سپریم کورٹ چلے گئے جس پر سپریم کورٹ نے اسمبلیاں بحال کردیں اس طرح میاں منظور احمدوٹو ایک بار پھر وزیراعلیٰ کی مسند پر براجمان ہونے میں کامیاب ہوگئے۔
اس کے بعد 1993ء کے انتخابات میں میاں منظور احمدوٹو نے تاندلیانوالہ سے الیکشن میں حصہ لیا اور کامیابی نے یہاں بھی ان کے قدم چومے بعد ازاں ان کی جونیجو لیگ نے پیپلزپارٹی کیساتھ الحاق کرلیا اورپیپلزپارٹی نے ان کو پنجاب کا وزیراعلیٰ بنادیا ۔ اور ڈھائی سال تک اس وزیراعلیٰ رہے اس کے بعد مرکز اور صوبے کی لڑائی میں ان کی وزارت اعلیٰ جاتی رہی اور بینظیربھٹو نے سردار عارف نکئی کو وزیراعلیٰ بنادیا مگر صرف چھ ماہ بعد ہی فاروق لغاری نے اسمبلیاں تحلیل کردیں ۔
1995ء میں میاں منظور احمدوٹو نے مسلم لیگ (جناح)کے نام سے اپنی پارٹی بنالی تاہم 1997ء کے الیکشن میں جیت نہ سکے بلکہ اس عرصہ میں نیب نے ان کے خلاف شکنجہ کسا اور پانچ سال تک کرپشن الزامات میں جیل میں رہے ۔تاہم اس کے باوجود ان کے بیٹے میاں معظم وٹو نے ایم پی اے کی سیٹ پر الیکشن جیت لیا اور 2001ء کے لوکل باڈی الیکشن میں جب کہ منظور وٹو جیل میں تھے مگر ان کا بیٹا میاں خرم جہانگیروٹو تحصیل ناظم منتخب ہوگیا۔2002ء میں میاں منظور وٹو جیل سے باہر آگئے اور اس سال ہونیوالے عام انتخابات میں ان کی بیٹی روبینہ شاہین وٹوایم این اے منتخب ہوگئیں۔
2008ء کے انتخابات میں میاں منظور احمدخان وٹو دیپالپور اور حویلی لکھا دونوں جگہ سے ایم این اے منتخب ہوگئے جس پر این اے 146دیپالپور کی سیٹ انہوں نے اپنے پاس رکھی جبکہ حویلی کی سیٹ چھوڑ کر اپنے بیٹے خرم جہانگیر کو وہاں سے منتخب کروادیا ۔اور اسی برس میاں منظور احمدوٹو پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے اوراس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی کابینہ میں میاں منظوروٹو کو انڈسٹری کی وزارت دے دی گئی جبکہ ان کے بیٹے میاں خرم جہانگیر وٹو پارلیمانی سیکرٹری بن گئے ۔اسی دور میں جب سپریم کورٹ نے یوسف رضا گیلانی کی وزارت عظمیٰ ختم کی تو نئے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے ان کو کشمیروبلتستان کا وزیر بنا دیا۔
2013ء کا سال میاں منظور احمدوٹو کیلئے کوئی اچھا شگون ثابت نہیں ہوا کیوں کہ اس برس پیپلزپارٹی پنجاب کے صدر ہونے کے باوجود یہ الیکشن میں تمام سیٹیں ہارگئے تاہم الیکشن کے صرف 45دن بعد ہی حویلی میں ہونے والے ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ ن کی جیتی ہوئی سیٹ پر ان کا بیٹا میاں خرم جہانگیروٹو ایم پی اے منتخب ہوگیا ۔
اس وقت میاں منظور احمدوٹو پاکستان پیپلزپارٹی کے مرکزی نائب صدر ہیں اور میاں خرم جہانگیروٹو ساہیوال ڈویژن کے صدر ہیں ۔
یہ افواہیں گرم ہیں کہ میاں منظور احمدوٹو پیپلزپارٹی کو چھوڑچکے ہیں مگر میاں منظور احمدوٹو نے ان خبروں کی تردید کی ہے ۔
میاں منظور احمدوٹو کے قریبی ساتھی سید کنول شاہ بخاری نے بتایا کہ میاں منظور احمدوٹو آئندہ الیکشن کے بارے میں پلاننگ کررہے ہیں ہمارے پاس سارے آپشن کھلے ہیں ہم آزاد حیثیت سے بھی لڑسکتے ہیں اور پارٹی ٹکٹ کا تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے مگر قائد محترم زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے منصوبہ بندی بنائیں گے ہم دوسری کسی جماعت کیساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ بھی کرسکتے ہیں۔مگر جو بھی ہو فی الحال ہم پیپلزپارٹی کو نہیں چھوڑرہے اور الیکشن لڑنے سے متعلق جو بھی فیصلہ کریں گے پارٹی کو اعتماد میں لے کر ہی کریں گے.
اس موقع پر دیپالپور کی سیاست پر نظررکھنے والے لوگوں کا کہنا ہے کہ میاں منظور احمد وٹو کو پیپلز پارٹی کی بجائے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنا چاہئے کیوں کہ پیپلز پارٹی کا ٹکٹ ان کی شکست کا باعث ہی بنے گا.یہ بھی سننے میں آرہاہے کہ میاں منظور احمدوٹو،ملک علی عباس اور سید رضاعلی گیلانی کا پینل بننے جارہاہے جو آزاد ہوگا.بہرحال سیاست کا یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے حتمی فیصلہ تیس مئی کے بعد ہی ہوگا.کچھ بھی ہوسکتا ہے.

جوں جوں الیکشن قریب آ رھے ھیں حلقہ 144 میں بھی سیاسی سرگرمیاں عروج پر ھیں یہاں سے قائد عوام میاں منظور احمد خان وٹو صاحب سابق وزیر اعلی پنجاب بھی حصہ لے رھے ھیں اور مضبوط ترین پوزیشن میں ھیں ان کے مقابلے میں مقامی ایم این اے کا رابطہ نہ ھو نے کے برابر ھے حالات و واقعات تو یہی بتا رھے ھیں اس دفعہ قائدعوام انشااللہ آسانی سے جیت جائیں گے