تحریر:قاسم علی…
دیپالپور پنجاب کی سب سے بڑی تحصیل ہے جو تحصیل ہونے کے باوجود 26اضلاع سے بڑی ہے خود ضلع اوکاڑہ کی تین تحصیلیوں میں موجود کل 3039139 نفوس پر مشتمل آبادی میں سے 1374912افرادصرف تحصیل دیپالپور میں بستے ہیں جو کہ ضلع اوکاڑہ کی تقریباََ نصف آبادی بنتی ہے۔ ملکی سیاست میں دیپالپور کی سیاست اور سیاسی شخصیات کا کردار بہت اہم رہاہے اس وقت بھی دیپالپور میں پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما راؤمحمد اجمل خان وفاقی پارلیمانی سیکرٹری برائے صنعت و پیداوار جبکہ سیدرضاعلی گیلانی صوبائی وزیربرائے ہائیر ایجوکیشن کی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں ۔تحصیل دیپالپور کو مسلم لیگ کا گڑھ سمجھا جاتا ہے جس کا ثبوت گزشتہ انتخابات میں نظر آتا بھی رہاہے مثال کے طور پر 2013ء میں سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں منظور احمد خان وٹو کو راؤمحمد اجمل خان کے مقابلے میں بھاری شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا جس میں راؤمحمد اجمل خان نے ایک لاکھ دس ہزار ووٹ حاصل کئے جبکہ میاں منظور وٹو صرف پچیس ہزار ووٹوں تک پہنچ پائے تھے۔اسی طرح دیپالپورکے دیگر علاقوں میں بھی ن لیگ کو برتری حاصل رہی ہے تاہم 2017ء کی مردم شماری کے بعد ہونیوالی نئی حلقہ بندیوں نے تحصیل دیپالپور کی سیاسی صورتحال پر گہرے اثرات مرتب کئے ہیں ۔ان حلقہ بندیوں کے بعد دیپالپور کی سیاست کہاں کھڑی ہے یہاں ہم اس کاایک جائزہ آپ کے سامنے پیش کرنے جارہے ہیں۔
تحصیل دیپالپور این اے کے دو حلقوں 142 اور 143پر مشتمل ہیں
جبکہ پی پی کے چار حلقے پی پی 185،پی پی 186،پی پی 187 اور پی پی 188اس میں شامل ہیں۔ یادرہے کہ حلقہ این اے 142حلقہ بندی سے پہلے این اے 146جبکہ این اے 143کو این اے 147کے نام سے جانا جاتا تھا۔
تحصیل دیپالپور میں اس وقت تین سیاسی جماعتیں نمایاں ہیں جن میں پاکستان مسلم لیگ ن،پاکستان تحریک انصاف اورپیپلزپارٹی شامل ہیں۔تاہم نئی حلقہ بندی نے حکمران جماعت کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے جبکہ پی ٹی آئی کی پوزیشن مضبوط ہوئی ہے۔یہاں ان تینوں پارٹیوں کو نئی حلقہ بندیوں سے ہونیوالے فائدے یا نقصان کی تفصیل دی جارہی ہے۔
این اے کے حلقہ 142سے پاکستان مسلم لیگ ن کے راؤمحمداجمل خان موجودہ ایم این اے ہیں مگرموجودہ حلقہ بندیوں کے بعد جو شخصیت بظاہر سب سے زیادہ متاثر نظر آرہی ہے وہ راؤمحمداجمل خان ہی ہیں کیوں کہ اس حلقہ بندی کے نتیجے میں ایک تو ان کی اہم ترین قانونگوئی کوئے کی بہاول اس حلقہ سے نکل گئی اور یہ وہ قانونگوئی تھی جہاں پر راؤصاحب نے بہت ورکنگ کی ہوئی تھی تاہم اب بانوے ہزار کی آبادی رکھنے والی اس قانونگوئی کے این اے143میں شامل ہوجانے اور اخترآباد اور شیرگڑھ کے اس حلقہ میں شامل ہوجانے سے راؤصاحب کو بہت نقصان ہوا ہے ۔ کیوں کہ نہ صرف کوئے کی بہاول جس نے 2013ء کے انتخابات میں ان کی جیت میں اہم ترین کردار اداکیا تھا وہ اب ان کے پاس نہیں ہوگی اور دوسرا یہ کہ اس حلقے میں شامل ہونیوالی دونوں نئی قانونگوئیوں اخترآباد اور شیرگڑھ میں وہ زیادہ اثرورسوخ نہیں رکھتے ہیں تاہم اخترآبادقانونگوئی میں راجپوت برادری کی سپورٹ ان کو کچھ ایڈوانٹیج دے سکتی ہے۔علاوہ ازیں شیرگڑھ اور اخترآباد قانونگوئیوں کے این اے 142میں شامل ہوجانے کے بعد اس حلقہ میں عاشق حسین کرمانی کی صورت میں ن لیگ کا ایک اور امیدوار سامنے آنا متوقع ہے جبکہ اس سے قبل راؤمحمداجمل خان یہاں پر ن لیگ کے واحد اور مضبوط امیدوار تھے۔تاہم اس تبدیلی اور اس کے نتیجے میں ن لیگ کو ہونیوالے نقصان کے باوجود مجموعی طوراین اے 142میں راؤمحمد اجمل خان کی پوزیشن دیگر امیدواران کے مقابلے میں مضبوط ہے۔ اسی طرح میاں معین احمدخان کو بھی کوئے کی بہاول قانونگوئی کی تبدیلی سے بہت نقصان پہنچاہے تاہم اس قانونگوئی میں میاں معین احمدخان وٹو کی مدد راؤمحمد اجمل خان کرسکتے ہیں۔
موجودہ صوبائی وزیرہائیرایجوکیشن سید رضا علی گیلانی بھی نئی حلقہ بندیوں سے بہت متاثر ہوئے ہیں کیوں کہ ان کی کامیابی میں کوئے کی بہاول اور حجرہ شاہ مقیم کا کردار کلیدی رہاہے مگر اب یہ دونوں قانونگوئیاں پی پی 185کا حصہ نہیں رہیں لیکن شاہ جی کیلئے اس سے بھی بری خبر جگنو محسن کرمانی کاانتخابات میں ان کے مدمقابل آن کھڑا ہونا ہے ۔
دیپالپور میں پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے میاں منظور احمدخان وٹو حلقہ این اے 142اور این اے 143سے ایم این اے کے امیدوار ہیں تاہم وہ این اے 142میں پہلے ہی راؤمحمد اجمل خان کے مقابلے میں کمزور امیدوار تھے مگر نئی حلقہ بندی کے بعد ان کی پوزیشن مزید کمزورہوئی ہے اور ان کا این اے 142سے الیکشن لڑنا زیادہ سود مندثابت نہیں ہوگا۔ اگرچہ این اے 143میں میاں معین وٹو مضبوط حکومتی امیدوار ہیں تاہم کوئے کی بہاول کے این اے 143میں چلے جانے کے بعد اس کا سب سے زیادہ فائدہ میاں منظور احمد وٹو کو ہوگا بلکہ اس کے ساتھ ہی ان کے بیٹے خرم جہانگیرکی پوزیشن بھی حلقہ پی پی 188میں مزیدمضبوط ہوگئی ہے ۔اس لئے میاں منظور احمدخان وٹو کو اب اپنی پوری توجہ این اے 143اور پی پی 188پر دینی چاہئے۔پی پی 185میں نئی حلقہ بندی کے نتیجے میں سید علی حسنین نقوی بھی پیپلز پارٹی کے امیدوار ہوسکتے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے یہاں پر تین پینل کام کررہے ہیں جن میں سردار شہریار موکل ڈاکٹرامجدوحیدڈولہ، راؤصفدر علی خان ،رانا طارق ارشاد خان اورسیدعباس رضا رضوی،علی حیدروٹو کے پینلز ایم این اے اور ایم پی اے کیلئے کیمپین کررہے تھے تاہم نئی حلقہ بندیوں کے بعدان تینوں میں اگر کسی کو فائدہ ہوا ہے تو وہ سردار شہریار اور ڈاکٹرامجدوحیدڈولہ کا پینل ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ نئی حلقہ بندی نے راؤصفدر علی خان کاپٹوارسرکل این اے 142سے نکال دیا ہے جس کاان کوبہت نقصان پہنچا ہے اور اس کیساتھ ہی اس کا اثر رانا طارق ارشاد پر بھی لازمی پڑے گاجوصدر پی ٹی آئی ضلع اوکاڑہ کی وجہ سے حلقہ پی پی 186میں پی ٹی آئی کی ٹکٹ کے مضبوط امیدوارسمجھے جارہے تھے اسی طرح سیدعباس رضا رضوی کے ایم پی اے کے امیدوار علی حیدروٹوکی پوری قانونگوئی این اے 142سے نکل جانے کی وجہ سے سیدعباس رضارضوی کا پینل بھی انتہائی متاثرہوا ہے ۔ایسے میں سردار شہریار موکل کواس لئے فائدہ ہوا ہے کہ اخترآباد اور شیرگڑھ قانونگوئیوں میں سردار شہریار موکل کافی اثرورسوخ رکھتے ہیں اوراسی حلقے سے 2002ء میں ان کے بھائی سردارمعین اسلم موکل جاوید علاولدین کے مقابلے میں پچیس ہزار ووٹ لئے اورانتہائی کم مارجن سے الیکشن ہارے تھے یہی وجہ ہے کہ نئی حلقہ بندی کے بعد یہ علاقہ این اے 142میں شامل ہونے سے سر دار شہریاربہت زیادہ سیاسی فائدہ ہوگا۔مزیدیہ کہ سردارشہریارموکل کے دوپٹوارسرکل حلقہ پی پی 186میں شامل ہونے سے ڈاکٹرامجدوحید کو بھی بہت سپورٹ ملے گی. دلچسپ بات یہ ہے کہ حلقہ بندی سے قبل سردار شہریار کو اس حلقہ میں ایم این اے کا کمزور امیدوار سمجھا جارہاتھا مگر نئی حلقہ بندی نےسردار شہریار موکل کو انتہائی مضبوط پوزیشن پر پہنچادیا ہے ۔حلقہ پی پی 185سے اگرچہ پیرصمصام شاہ پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑنا چاہتے ہیں مگر اس علاقے میں ان کا کوئی خاص اثرو رسوخ نہیں ہے البتہ مہراقبال بھرانہ،سیدگلزارسبطین یا مراتب علی کرمانی میں سے بھی کوئی پی ٹی آئی کا موثرامیدوارسامنے آ سکتا ہے ۔نئی حلقہ بندی میں پی پی 188میں دیوان اخلاق احمد مضبوط امیدوارتھے تاہم اب یہاں سردار علی حیدر وٹو بھی پی ٹی آئی کے امیدوار ہیں۔
اس کے علاوہ ملک علی عباس کھوکھر،چوہدری افتخار حسین چھچھر اور فیاض قاسم وٹوکو اس نئی حلقہ بندی سے کوئی خاص فرق نہیں پڑا ہے۔
