تحریر:قاسم علی…
2013ء کے انتخابات کے بعد مقامی ایم این اے اور ایم پی اے کے مابین اختلافات پیدا ہوگئے یہی نہیں بلکہ یہ اختلافات بڑھتے بڑھتے شاہ مقیم گروپ تک پھیل گئے جس کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑا کیوں کہ باہم اتفاق سے اس علاقے میں مزید کئی ترقیاتی منصوبے شروع کروائے جاسکتے تھے خاص طور پر مسلم لیگ ن کا گڑھ سمجھا جانے والے ضلع اوکاڑہ کے تمام سیاستدان اگر چاہتے تو ہرسال سینکڑوں گھروں میں صف ماتم بچھنے کا سبب بننے والےدیپالپور اوکاڑہ روڈ کو ون وے کروا سکتے تھے لیکن ایسا نہ ہوسکا.اور اب دیپالپور میں ان دنوں جگہ جگہ لگے کوڑے کرکٹ کے ڈھیر،ترقیاتی کاموں کے رکنے اور صاف پانی کی عدم فراہمی جیسے مسائل نے عوام کو زچ کر کے رکھ دیا ہے۔یہ صورتحال میونسپل کمیٹی دیپالپور کے چیئرمین کے خلاف ناکام تحریک عدم اعتماد کے بعد کیسے بدسے بدتر ہوتی گئی اس بارے جب ہم نے عوام اور متعلقہ حکام سے رابطہ کیا تو ان کا کیا کہنا تھا آئیے ہم آپ کو اس سے آگاہ کرتے ہیں۔
اگست کے شروع میں فنڈز کے غلط استعمال اور غیرقانونی طریقے سے بجٹ پاس کروانے کی کوشش کا الزام لگاتے ہوئے اکثریتی اراکین بلدیہ کمیٹی دیپالپورنے چیئرمین کے خلاف بغاوت کردی اور ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کردی تھی۔
دیپالپور میونسپل کمیٹی میں کل اراکین کی تعداد پچیس ہے اور قانون کے مطابق ان میں سے سے دوتہائی یعنی سترہ اراکین مل کر چیئرمین کا تختہ الٹ سکتے ہیں ۔اس تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کافی یقینی نظر آرہی تھی تاہم آخری وقت میں ناکامی سے دوچار ہوگئی اور چیئرمین میاں فخر مسعود بودلہ کامیاب ٹھہرے ۔
اپنی کامیابی کے بعد انہوں نے اس کامیابی کو عوام کی اور دیپالپور کی کامیابی قراردیا مگر درحقیقت اس قرارداد کی ناکامی نے شہریوں کی زندگی اجیرن کردی ہے۔کیوں کہ بجٹ کی منظوری کیلئے اکثریتی اراکین کی منظوری ضروری ہوتی ہے جوکہ تیرہ اراکین بنتے ہیں مگر چیئرمین کے پاس محض نو اراکین ہیں۔
طاہر بلال شاہ ایک سماجی ورکر ہیں ان کا کہنا ہے کہ بازار میں کئی گلیاں ایسی ہیں جہاں سے گزارنا ناممکن ہوچکا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں پر جگہ جگہ کھڈے پڑچکے ہیں اور معمولی بجٹ سے ان کو ٹھیک کیا جاسکتا ہے لیکن جب اس سلسلے میں ہم نے چیئرمین سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ان کے پاس بجٹ نہیں ہے کیوں کہ بجٹ کے پاس کروانے کیلئے تیرہ اراکین کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ میرے پاس نو اراکین ہیں جب تک مطلوبہ اراکین فنڈ پاس نہیں کریں گے تب تک کوئی ترقیاتی کام نہیں ہوسکتا ہے۔
اعجاز احمد کمبوہ افضل کالونی کا رہائشی نوجوان ہے اس نے بتایا کہ ان کی گلی میں سیوریج سسٹم کی خرابی کی وجہ سے سینکڑوں لوگوں کو مشکلات کا سامنا ہے مگر ہمارے علاقے کے کونسلر اس لئے اب ہماری بات نہیں سنتے کیوں کہ ان کا تعلق چیئرمین کی مخالف پارٹی سے ہے اور وہ اب کوئی کام نہیں کرواسکتے۔
شہریوں سے جب اس صورتحال بارے رائے لی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ
اصل میں یہ ہاتھیو ں کی لڑائی تھی جس میں عوام کیڑے مکوڑوں کی طرح پس رہے ہیں۔لوگوں نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد کو دونوں فریقین نے اپنی اناکا مسئلہ بنالیا تھا اب چیئرمین صاحب فتحیات تو ہوچکے ہیں مگر بجٹ پاس نہ کرواسکنے کے باعث ہرچیزجمود کا شکار ہے۔
محمدحسن پاکپتن روڈ پر چائے کی دوکان چلاتا ہے اس کا کہنا ہے کہ چھ ماہ سے اس کے سامنے والے دو مین ہول بند پڑے ہیں لیکن کمیٹی انتظامیہ کو یہ چلانے کی توفیق نہیں ہوئی یہ سب ڈرامے کرتے ہیں تحریک عدم اعتماد کی ناکامی تو ایک ماہ کی بات ہے پہلے بھی ان کی کارکردگی صفر تھی.
ایک شہری محمدسلیم کا کہنا ہے اس تحریک کے پیچھے ایم این اے کا واضح ہاتھ تھا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ چیئرمین صاحب کی جانب سے بھی بے ضابطگیاں کی گئیں جن کا حساب مانگا گیا تو وہ برا مان گئے جس کے جواب میں تحریک عدم اعتمادلائی گئی بہتر ہوتا اگر یہ کامیاب ہی ہوجاتی کیوں کہ اس طرح کم از کم عوام کے کام تو ہوتے رہتے۔لیکن اب صورت حال یہ ہے کہ شہربھر میں صفائی ستھرائی بھی نہیں ہورہی۔ترقیاتی کام تو بہت دور کی بات ہے۔
رتہ کھنہ روڈ کے رہائشی ایک نوجوان نے بتایا کہ مقامی انتظامیہ کی جانب سے صاف پانی کی فراہمی پہلے ہی ایک خواب تھی لیکن تو ان کے پاس بجٹ پاس نہ ہونے کا معقول بہانا موجود ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ صاف پانی کی عدم فراہمی سے موذی بیماریاں پھیل رہی ہیں جس کے ذمہ دار دیپالپور کے تمام کونسلرز ہوں ہوں گے۔
ڈاکٹرعادل رشید کا کہنا ہے کہ صحتمند زندگی کیلئے صحتمندانہ ماحول اور صاف پانی کلیدی حیثیت رکھتا ہے حکومت اگر یہ دو چیزیں بہم فراہم کرتی رہے تو ہسپتالوں مٰن مریضوں کا رش کم ہوجائے گا کیوں کہ زیادہ تر بیماریاں اسی سبب پیدا ہوتی ہیں۔
اور تو اور خود میونسپل کمیٹی کے ملازمین بھی جون کے بعد تنخواہوں سے محروم ہیں ۔کمیٹی کے ملازمین کا کہنا ہے کہ تین ماہ ہوگئے انہیں تنخواہیں بھی نہیں ملی ہیں کیوں کہ سالانہ بجٹ پاس نہیں ہوسکا ہے ۔اگر یہی سلسلہ جاری رہاتو ہمارے گھروں میں فاقے شروع ہوجائیں گے اور مجبوراََ ہمیں احتجاج کیلئے نکلنا پڑے گا ۔
اس سلسلے میں چیئرمین بلدیہ کے حامیوں کاکہنا ہے کہ انہوں نے کبھی کرپشن نہیں کی بلدیہ سے باہر بیٹھے کونسلرز کو چاہئے کہ عوام کا خیال کریں اور ہاؤس میں آکر بجٹ پاس کروائیں تا کہ ترقیاتی کام کروائے جاسکیں اور کمیٹی ملازمین کو تنخواہیں بھی دی جاسکیں۔
جبکہ دوسری طرف تحریک عدم اعتماد لانے والے گروپ کا کہنا ہے انہوں نے اصولی بنیادوں پر چیئرمین سے حساب مانگا کسی کے دباؤیا کسی کے اشاروں پر چلنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ہم نے چیئرمین صاحب سے پوچھا تھا کہ لوکل کوٹیشن کی مد میں کروڑوں روپے کے فنڈ کا حساب دیں مگر وہ انکار کرگئے ہم آج بھی یہی کہتے ہیں کہ عوام کا پیسہ عوام پر ہی خرچ ہونا چاہئے اور چیئرمین جب تک حساب نہیں دیں گے ہم ہاؤس میں نہیں جائیں گے۔