میری تحصیل دیپالپور رقبے اور آبادی کے لحاظ سے پنجاب کی بڑی تحصیلوں میں شمار ھوتی ھے، اِس کی سرحدیں مشرق میں ضلع قصور، مغرب میں ساھیوال، جنوب مغرب میں پاکپتن اور جنوب مشرق میں
ضلع بہاولنگر کے ساتھ ملتی ھیں ۔۔
اِس کے علاوہ پاکستان اور بھارت کا بارڈر اور دریائے ستلج متوازی حالت میں قصور سے دیپالپور کی تحصیل میں داخل ھوتے ھیں، یوں انٹرنیشنل بارڈر اور ستلج کا وسیع ایریا ھماری تحصیل میں واقع ھے ۔۔
قصور سے لے کر ھیڈ سلیمانکی تک بارڈر اور ستلج متوازی حالت میں چلتے ھیں، سلیمانکی – فاضلکا بارڈر (JCP) اور ھیڈ ورکس تحصیل دیپالپور کی حدود میں واقع ھیں، لیکن سلیمانکی برج کے اُس پار نہ صرف دریا اور
پاک-بھارت بارڈر مخالف رُخ اختیار کر لیتے ھیں بلکہ انتظامی لحاظ سے بھی سب کچھ بدل جاتا ھے، دریا پار تحصیل دیپالپور کی حدود کا اختتام ھو جاتا ھے اور سابق ریاست بہاولپور اور موجودہ ڈویژن بہاولپور کے ضلع بہاولنگر کا آغاز ھو جاتا ھے، جبکہ دریا تحصیل دیپالپور کے اندر ھی جنوب مغربی سمت میں بہتے ھوئے ضلع اوکاڑہ اور ضلع بہاولنگر کا بارڈر بنانے لگتا ھے ۔۔

دنیا میں جہاں بھی ندی نالے یا دریا ھیں، اُن پر ھر جگہ یا تھوڑے تھوڑے فاصلے پر پُل بنانا ممکن نہیں ھوتا، لہٰذا اِن دریاوُں کو چھوٹی بڑی،
دیسی ولائتی، کشتیوں کے ذریعے کراس کرنا ایک معمول ھے،
پوری دنیا میں صدیوں سے یہی طریقہ رائج ھے ۔۔
البتہ باھر کے ممالک اور ھم میں ایک بنیادی فرق ھے، اور وہ یہ کہ وھاں لوگ اپنی کشتیوں وغیرہ کی “صحت” کا خاص خیال رکھتے ھیں،
جبکہ ھماری طرف “نہ انجن کی خوبی نہ کمالِ ڈرائیور ۔۔ چلی جا رھی ھے خدا کے سہارے” والا فارمولا ایجاد کِیا گیا ھے، اِس فارمولے کا موجد تو کب کا مٙر کھپ گیا مگر ھماری عوام اِسی کلیئے کو جپھا ڈالے پھرتی ھے ۔۔
مٙیں دوسروں کی بات نہیں کرتا، ذاتی تجربوں کی روشنی میں عرض کرتا ھوں کہ میں نے دُور دراز اور مختلف مقامات پر چناب، راوی اور ستلج کو درجنوں بار دیسی کشتیوں پر کراس کِیا ھے، لیکن ھر بار، ھر علاقے میں، مجھے ایک ھی نصاب کی کشتیاں اور ملاح ملے ھیں، حتیٰ کہ کیماڑی سے منوڑہ جانے والی سمندری لانچوں کی حالت بھی ھماری دریائی کشتیوں جیسی ھی ھے ۔۔

ان پڑھ (اور بعض اوقات کم عُمر) ملاحوں کی “قیادت” میں کمزور، لاغر، اور غموں دکھوں کی ماری کشتیاں مجبور عوام، اور اُن کے مال و متاع اور بے زبان ڈھور ڈنگر کو لادے طغیانیوں بھرے دریاوُں میں آر پار کے پھیرے جاری رکھتی ھیں، کشتی اوور لوڈ ھے یا اُس کے پیندے وغیرہ کی مرمت ھونے والی ھے، اِس سے ملاح کو کچھ لینا دینا نہیں، ایک بار کشتی بن جانے کے بعد پھر ساری تعمیر و مرمت کا ٹھیکہ مالک و ملاح خود اٹھا لیتے ھیں ۔۔
یقیناً زندگی اور موت اللّہ کریم کے ھاتھ میں ھے لیکن حادثوں میں انسانی غفلت، کوتاھی، اور لاپرواھی کا کردار کیونکر نظر انداز کِیا جا سکتا ھے؟؟
آج صبح میرے شہر دیپالپور سے جنوب مشرق میں تقریباً 45 کلومیٹر دُور ستلج کنارے تحصیل کے آخری گاوُں “مٙلّحو شیخو” پتن پر ایک کشتی حادثے کا شکار ھوئی، اِس کشتی پر عام مسافروں کے ساتھ ساتھ تحصیل منچن آباد کے وہ مرد و خواتین بھی سوار تھے جو دریا کے اِس طرف وٹو خاندان کے ایک بزرگ کے جنازے میں شرکت کے لیئے آ رھے تھے، پتن کے قریب کشتی میں لیکج کے باعث پانی بھرنے لگا تو عوام نے جان بچانے کے لیئے دریا میں چھلانگیں مار دیں، اِس افرا تفری میں کشتی توازن کھو کر حادثے کا شکار ھو گئی، جس کے نتیجے قیمتی جان و مال کا خاصا نقصان ھُوا، مقامی ذرائع کے مطابق تحصیل و ضلعی انتظامیہ اور متعلقہ اداروں کے ساتھ ساتھ علاقے کے لوگوں نے بھی امدادی سرگرمیوں میں بھرپور حِصّہ لیا ۔۔

میری دعا ھے کہ ۔۔ 🤲🙏🙏🤲
اللّہ کریم مرحومین کی مغفرت فرمائے،
زخمیوں کو صحت تندرستی عطا فرمائے،
لواحقین کو صبرِ جمیل کی دولت سے نوازے،
اور
آئندہ ایسے حادثات سے سب کو محفوظ فرمائے!!
آمین ثم آمین