تحریر:قاسم علی…
وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کی پانچ مارچ کو دیپالپور آمدکی خبریں عام ہیں اگر وہ یہاں تشریف لاتے ہیں تو دیپالپور کی عوام کی کیا مطالباتی فہرست ہونی چاہئے جو ہمارے عوامی نمائندگان کو وزیراعلیٰ پنجاب کے سامنے پیش کرنی چاہئے یہاں اس کی تفصیل دی جارہی ہے اگرچہ ان تمام چیزوں پر بندہ پہلے بھی بارہا لکھ کر حکام بالا کی توجہ دلا چکا ہے مگر موقع کی مناسبت سے ان تمام اہم ترین مسائل کو ایک جگہ پر جمع کیا جارہاہے اس امید کیساتھ کہ دیپالپور کے عوام کے منتخب کردہ نمائندے وزیراعلیٰ کے جلسہ کو کامیاب بنانے کیلئے سارا زور عوام کو جمع کرنے اور شیر شیر کے نعرے لگوانے کیساتھ ساتھ اپنے حاصل کردہ ووٹوں کا حق ادا کرتے ہوئے یہ تمام مطالبات بھی میاں شہباز شریف کے سامنے ضرور پیش کریں گے مجھے یقین ہے کہ اگر دیپالپور کے منتخب کردہ تمام ایم این ایز اور ایم پی ایز یک زبان ہو کر ان مطالبات کومنوانے کیلئے اصرار کریں تو وزیراعلیٰ ضرور اسی جلسہ میں ان مطالبات کی حامی بھرسکتے ہیں اور ان پر فوری کام بھی شروع کرواسکتے ہیں اور اگر ایسا ہوتا ہے تو نہ صرف اس کے یہاں کی عوام کوبیش بہا فوائد ہوں گے بلکہ ان مطالبات کے پورا ہونے کی صورت میں مسلم لیگ ن کو زبردست سیاسی فوائد بھی ہوں گے۔یہاں یہ ذکر بھی کرتاچلوں کہ یہ مطالبات وہ ہیں جو میری نظر میں انتہائی ضروری ہیں اور جن سے متعلق میں اس سے قبل فیچرز،کالمز اور ڈائریاں لکھ چکا ہوں ممکن ہے اس کے علاوہ بھی کچھ ضروری چیزیں ہوں جومیری نظرِکوتاہ سے نہ گزری ہوں آپ ان سے متعلق کمنٹ کر سکتے ہیں انشااللہ ان کو آئندہ تحریر میں شامل کیا جائے گا وہ مطالباتی فہرست یہ ہے۔
حویلی،دیپالپور اوکاڑہ روڈ ون وے کیا جائے ۔
دیپالپور سے اوکاڑہ روڈ کو پنجاب کی خطرناک ترین سڑکوں میں شمار کیا جائے تو شائد غلط نہ ہوگا پچیس کلومیٹر کا یہ ٹکڑا ب تک ہزاروں ماؤں کی گودیں ویران اوربیشمار سہاگ اجاڑ چکا ہے اسی گھمبیر صورتحال کو دیکھتے ہوئے میں نے پانچ سال قبل اس سڑک کو شاہرائے موت اور قاتل روڈقراردیا تھامجھے بہت خوشی ہے کہ اس ناچیز کی اس حوالے سے شروع کی گئی کیمپین آج زبان زدعام ہوچکی ہے حویلی لکھاروڈ پر بھی حادثات کی بڑھتی ہوئی تعدادکے پیش نظر عوام کا اس حوالے سے بھی مطالبہ زور پکڑ گیا ہے کہ حویلی لکھا روڈ کو بھی ڈبل کیا جائے اگر تمام نمائندے منظم طریقے سے یہ مطالبہ میاں صاحب کے سامنے رکھیں تو کوئی وجہ نہیں کہ حویلی لکھا ،دیپالپور اوکاڑہ تک آمدو رفت کا یہ مسئلہ حل ہوجائے اور آئے روز ان سڑکوں پر انسانی لہو بہنا رک جائے۔
دیپالپور کو ضلع بنایا جائے۔
چھ لاکھ انسٹھ ہزار پانچ سو پندرہ ایکڑ رقبہ،بارہ لاکھ سے زائد آبادی،پانچ میونسپل کمیٹیاں اور 67 یونین کونسلیں رکھنے والی پنجاب کی سب سے بڑی تحصیل ہرلحاظ سے ضلع بننے کے قابل ہے۔منڈی احمدآباد ہو یا حویلی لکھا دوردراز سے عوام کوڈی پی او آفس ،ڈپٹی کمشنر آفس،پاسپورٹ بنوانے اور دیگر اہم محکموں سے متعلقہ امور کیلئے طویل اور اوکاڑہ روڈ کا خوفناک سفر کرکے جانا پڑتا ہے جس سے حادثات تو بڑھتے ہی ہیں ساتھ میں دفاتر میں رش کی وجہ سے عوام کے کام بروقت نہیں ہوپاتے اور ایک ہی فائل کیلئے لوگوں کو درجنوں چکرلگانے پڑتے ہیں لیکن اگر دیپالپور کو ضلع کا درجہ مل جائے توانتظامی یونٹ چھوٹا ہوجانے سے ان دفاتر پر کام کا بوجھ کم ہوگا اور دفاتر دیپالپور منتقل ہوجانے سے لوگوں کو بہت سہولت مل جائے گی۔اس کے علاوہ بھی اپنی کاروباری سرگرمیوں ،ریونیو اور دیگر کئی وجوہات کی بنا پر دیپالپور کا ضلع بنایا جانا انتہائی ضروری ہے۔
نئے جوڈیشل کمپلیکس کاقیام
جیسا کہ میں نےاوپر ذکر کیا کہ دیپالپور پنجاب کی سب سے بڑی تحصیل ہے بالکل اسی طرح یہاں کی بارایسوسی ایشن کا شمار بھی ملک کی بڑی ایسوسی ایشنوں میں ہوتا ہے جس کے ممبرز کی تعداد تو ایک ہزار سے بھی تجاوز کرچکی ہے مگر اس کا رقبہ محض تین ایکڑ کے قریب ہے جس میں بمشکل ڈیڑھ سو چیمبرز ہیں جن میں صرف تین ساڑھے تین سو وکلاء پریکٹس کرتے ہیں جبکہ باقی وکلاء چیمبرز کا نہ ہونے کے باعث پریکٹس میں نہیں ہیں ۔اسی طرح دیپالپور میں ستائیس سول اور دس ایڈیشنل سیشن ججز کی سیٹیں ہیں مگر جگہ کی کمی کی وجہ سے عدالتوں کی بھی کمی ہے اور اس وقت محض بائیس ججز اپنے فرائض منصبی ادا کرپارہے ہیں ۔ججز کی کمی کا نقصان یہ ہے کہ دیپالپور جوڈیشری میں سولہ ہزار سے زائد کیس التوا کا شکار ہیں جو کہ بہت بڑی تعداد ہے ۔تمام وکلاء کے پریکٹس میں نہ ہونے اور ججز کی کمی کو صرف نئے اور وسیع جوڈیشل کمپلیکس کے قیام سے ہی ختم کیا جاسکتا ہے جس کیلئے حکومتی سطح پر متعدد بار وعدے بھی ہوئے ہیں مگر وہ وفا نہ ہوسکے ۔اب اگر وزیراعلیٰ صاحب سے مقامی عوامی نمائندے یہ اہم مطالبہ منوا لیتے ہیں تو اس سے عوام کو بہت زیادہ ریلیف مل سکتا ہے۔
مٹی کو سونا بنانے والے کسانوں کی آواز بنو۔
دیپالپور کی دھرتی جو کئی لحاظ سے نمایاں حیثیت کی حامل ہے انہی میں اس کی زرخیز سرزمین کو بھی کسی طورنظر انداز نہیں کیا جاسکتاخاص طور پر دیپالپور کا آلو پوری دنیا میں اپنی مثال آپ ہے ایسے میں ہونا تو یہ چاہئے کہ یہاں کا کسان اور زمیندار بھی خوشحال ہو مگر اصل صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے یہاں کا کسان ناقص حکومتی پالیسیوں کے باعث انتہائی زبوں حالی کا شکار ہے یہاں کی سرزمین ملکی ضروریات سے بڑھ کر آلو پیدا کرتی ہے مگر اس کے باوجود زمیندارآڑھتی اور کولڈ سٹوروالے سے بھی عاجز ہے ۔وزیراعلیٰ کے دورہ کے موقع پر کسانوں نے احتجاج کا پروگرام بنا رکھا ہے مقامی عوامی نمائندے جو بظاہر تو زراعت کو ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت کا پرچار کرتے رہتے ہیں ان کواب عملی طور بھی چاہئے کہ کسان بھائیوں کو احتجاج سے روکنے کیلئے قائل کرنے کی بجائے ان کی آواز بنیں اور ان کے مطالبات کو ایک زبان ہوکر وزیراعلیٰ تک پہنچائیں اور منوائیں۔
قلعہ دیپالپور کو تباہی سے بچایا جائے ۔
قلعہ دیپالپور جسے مقامی لوگ ڈھکی کہتے ہیں اگر اسے دنیا کی قدیم ترین زندہ تہذیبوں میں سے ایک شمار کیا جائے تو ہرگز غلط نہیں ہوگا اہل علم و فن اس نایاب تاریخی ورثے کی بدحالی کو دیکھتے ہوئے کہنا ہے کہ مہذب قومیں اپنے تاریخی ثقافتی ورثے کی حفاظت کرتی ہیں مگر قلعہ دیپالپور کے حوالے سے حکومتی سردمہری انتہائی افسوسناک ہے ۔تاریخ دانوں کے تینتیس سال کی عمر میں آدھی دنیا فتح کرلینے والا سکندراعظم دیپالپور کے اس قلعہ کو سرنہ کرسکا اور اسی جنگ میں اس کو لگنے والا زہریلا تیر اس کی موت کا باعث بنا،چنگیزی افواج جہاں جاتی تھی ہر چیز کو تہہ و بالا کردیتی تھی مگر عظیم قلعہ دیپالپور کے آگے ان کی بھی ایک نہ چلی اسی طرح ظہیرالدین بابر نے بھی اپنی کتاب ”تزک بابری”میں قلعہ دیپالپور کی مضبوطی اور یہاں کے باشندوں کی بہادری کا خاص طور پر ذکر کیا ہے۔قصہ مختصر یہ کہ اس نادرو نایاب تاریخی ورثہ کی بچی کھچی علامات کو بچانے کیلئے ہنگامی سطح پر اقدامات کی اشد ضرورت ہے ۔معروف سکالر پروفیسر ڈاکٹر امجد وحید ڈولہ کا اس ضمن میں یہ کہنا بالکل بجا اور دیپالپور کی عوام کے دل کی آواز ہے کہ اگر اس طرح کا تاریخی قلعہ اگر کسی یورپی و مغربی ملک میں ہوتا تو وہاں کی حکومت اس کو اس اہتمام سے محفوظ کرچکی ہوتی کہ اس کی مثال ملنا مشکل ہوتی ان کا کہنا ہے کہ اگر حکومت اب بھی قلعہ دیپالپور پر خصوصی توجہ دے کر اس کی تزئین و آرائش کرے تو پوری دنیا سے سیاح یہاں پر سیروتفریح کیلئے آئیں جس سے نہ صرف حکومت کو بھاری ریونیوحاصل ہوگا بلکہ اس کیساتھ مقامی عوام کو روزگار کے بھی بہترین موقع میسر آجائیں گے۔ وزیراعلیٰ پنجاب کی دیپالپور آمد پر مقامی عوامی نمائندگان کو یہ مطالبہ بھی ان کے سامنے ضرور رکھنا چاہئے۔
پوسٹ گریجوایٹ کالج کی تمام ضروریات پوری کی جائیں۔
ترقی کے مدارج تک پہنچنے کیلئے تعلیم کلیدی اہمیت رکھتی ہے اسی کیلئے یہ ضروری ہوتا ہے ہر ملک میں جابجا میعاری تعلیمی درسگاہیں بنائی جاتی ہیں جہاں پر سہولیات اور بہترین ماحول طالب علموں کو فراہم کیاجاتا ہے مگر دیپالپور میں 1976ء میں قائم ہونیوالا انٹرکالج جو بعد ازاں ڈگری کالج اور اب پوسٹ گریجوایٹ کالج کا درجہ تو حاصل کرچکا ہے مگر درحقیقت یہاں پر موجود سہولیات آج بھی انٹرکالج کی ہی ہیں نہ تو اس کی عمارت میں اضافہ کرتے ہوئے نئے بلاک بنائے گئے اور نہ ہی مزید اساتذہ اور پروفیسرز بھرتی کئے ہیں اور آج بھی ایک ہزار کے قریب طلبہ کو پڑھانے کیلئے صرف بیس اساتذہ ہیں کالج انتظامیہ کے مطابق زوالوجی،ریاضی اور کمپیوٹر کیلئے فوری طور پر چار اساتذہ کی تو ہنگامی طور پر ضرورت ہے،ہاسٹل یہاں نہیں ہے اور تو اور پندرہ ایکٹر کے رقبے پر مشتمل کالج کی صفائی کیلئے صرف ایک سویپر ہے اور نگرانی کیلئے ایک چوکیدارہے بجلی کا ٹرانسفارمر بھی اپ گریڈ کرنے اور نیا فراہم کرنے کی ضرورت ہے ۔شہر کے واحدسرکاری کالج کی یہ حالت مقامی عوامی نمائندوں کی غفلت کا منہ بولتا ثبوت بھی ہے جس کا انہیں اب ضرور ازالہ کرنا چاہئے۔ادارہ کے پرنسپل جناب خالد محمود خان نے مجھے بتایا کہ اس سے قبل میاں نوازشریف کے دورہ سے قبل انہوں نے مقامی ایم این اے راؤمحمد اجمل خان کے سامنے ان مسائل کا تذکرہ کیا تھا جس پر انہوں نے وزیراعظم سے ان مطالبات کی منظوری کا وعدہ بھی کیا تھا مگر پھر وہ دورہ منسوخ ہو گیا تھا تاہم اب میاں شہباز شریف کی آمد پر راؤصاحب کو اپنے وعدے کا پاس ضرور کرنا چاہئے۔
صحت کی بہترین سہولیات کی فراہمی۔
کہتے ہیں کہ جان ہے تو جہان ہے مگر اہل دیپالپور کایہ شکوہ بالکل بجا ہے کہ کوئی بھی حکومت دیپالپور کی عوام کو صحت کی بنیادی سہولیات نہیں دے پائی اس کیلئے سب سے زیادہ ضروری صاف پانی کی فراہمی ہے اس ترقی یافتہ دور میں بھی دیپالپور کی بڑی آبادی کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں جس کے باعث پورا دیپالپور بیماریوں کا گڑھ بن چکا ہے یہاں کی عوام میاں شہباز شریف سے صرف پانی کی فراہمی یقینی بنانے کیلئے اقدامات کا ہی مطالبہ نہیں کرتی بلکہ یہ بھی چاہتی ہے کہ ان عناصر کے خلاف تحقیقات بھی کی جائیں جنہوں نے کروڑوں روپے کی لاگت سے تعمیر ہونیوالے صاف پانی کے منصوبوں کو جان بوجھ کر فلاپ کیا ہے۔اس سلسلے کا دوسرا بڑا مطالبہ تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال میں جدید ترین ماڈل ہسپتال کی سہولیات و ڈاکٹرز کی فراہمی یقینی بنانا ہے گزشتہ برس سے ہسپتال کی بلڈنگ کی تزئین و آرائش پر تو کروڑوں خرچ کئے گئے ہیں مگر ڈاکٹرز کی آسامیاں پر نہ ہونے،وعدے کے باوجود اس کے اپ گریڈ نہ ہونے،جدید مشینری کی عدم دستیابی کے باعث یہ ہسپتال کم اور ریفر پوائنٹ زیادہ لگتا ہے ۔خدارا مقامی عوامی نمائندے میاں صاحب کو یہ باور کرائیں کہ مریضوں کا علاج بڑی عمارتوں سے نہیں بلکہ علاج کی سہولیات کی متواتر فراہمی سے ممکن ہے۔
نادرا دفتر کی توسیع ۔
قومی شناختی کارڈ ہرپاکستانی کی اہم ترین دستاویز ہوتی ہے مگردیپالپور میں اس دستاویز کا بنوانا بالکل بھی آسان نہیں ہے جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ 2004ء میں صرف 600مربع فٹ کے رقبے پر قائم کیا گیا نادرا دفتر انتہائی ناکافی ہے جس میں کام کرنے والا 15افراد پر مشتمل عملہ اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود اس بے انتہا رش کو فارغ نہیں کرسکتاجو یہاں شناختی کارڈ بنوانے کیلئے آتا ہے اور انہیں مجبوراََ بار بار دفتر کے پھیرے لگانا پڑتے ہیں یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ یہ دفتر محض 100افراد کوروزانہ شناختی کارڈ بنانے کیلئے قائم کیا گیا تھا مگر آج یہاں روزانہ تین سے پانچ سو افراد شناختی کارڈ بنوانے کیلئے آتے ہیں اگر اس کا رقبہ اور عملہ بڑھا دیا جائے تو عوام کو بڑی آسانی میسر آسکتی ہے اور یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ سابق اسسٹنٹ کمشنر دیپالپور امتیاز کچھی نے بلدیہ کی 600مربع فٹ جگہ نادرا کو دینے کی منظوری دے دی تھی مگر اس کے باوجود اس پر عمل نہ ہوسکا ۔کیا مقامی عوامی نمائندے وزیراعلیٰ کی توجہ اس جانب بھی مبذول کروائیں گے ؟
