تحریر:قاسم علی…
آج ملک بھر میں یوم آزادی منایا جارہاہے اس روز کئی نوجوان لڑکے موٹرسائیکلوں سے سائیلینسر اتار کر ون ویلنگ کرنے کوہی آزادی کا جشن منانا سمجھتے ہیں مگریہ آزادی اتنی آسانی سے نہیں ملی کہ ان مناظر کو بھلایا جاسکے یا ایسی خرافات میں اس عظیم دن کو ضائع کیاجائے۔
اس وطن کے حصول کیلئے جن بزرگوں نے قربانیاں دیں یا جنہوں نے اپنی آنکھوں سے پاکستان بنتے دیکھاان کیلئے 14اگست کا دن خوشی کاتو ہوتا ہی ساتھ میں ان کےکئی زخم بھی ہرے ہوجاتے ہیں ۔
ملک غلام محمدجٹ نوناری بھی ایسے ہی ایک پچاسی سالہ بزرگ ہیں ان کا کہنا ہے کہ آزادی کے وقت وہ ملیانوالہ(موجودہ رینالہ خورد)میں رہتے تھے اس وقت ان کی عمر سولہ سترہ سال ہوگی کہ اعلان ہوگیا کہ پاکستان اور ہندوستان الگ ہوگئے ہیں ۔اس وقت ہمارے گاؤں میں کئی سکھ اور ہندوگھرانے آباد تھے جنہوں نے سامان باندھنا شروع کردیا لیکن اس کیساتھ ہی وہ ہم سے جدائی پر افسردہ بھی تھے کیوں کہ ہمارے درمیان بہت اچھے تعلقات تھے جس وقت وہ یہاں سے جانے لگے تو مجھے آج بھی یاد ہے کہ پورا گاؤں انہیں باہر چھوڑنے گیا تھا اور بار بار پیچھے مڑکر دیکھتے تھے ۔
ملک غلام محمد جٹ نوناری جو 90 کی دہائی میں دیپالپور بلدیہ کے وائس چیئرمین بھی رہے ہیں ان کا مزید کہنا تھا کہ جو لوگ ہمارے طرف سے بھارت میں گئے تھے ان کی حفاظت کیلئے ہماری حکومت نے فوج ساتھ بھیجی تھی جو انہیں بحفاظت سرحدوں چھوڑ کر آئی تھی۔ان کے جانے کے بعد ہم کئی روز اس طرح پریشان رہے جیسے اپناکوئی عزیز ہم سے جدا ہوگیا ہو۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کا حصول اس صدی کا بڑا کارنامہ تھا جسے قائداعظم نے ممکن بنایا مگر ان کے بعد پاکستان کو ایسا کوئی قابل لیڈر نہیں مل پایا جو قیام پاکستان کے مقاصد کو پورا کرتا جو بھی آیا اس نے اپنا ہی پیٹ بھرا قوم کا نہیں سوچااور ان بزرگوں کے مشن کا نہیں سوچا جو اس وطن کے حصول کیلئے اپنا سب کچھ قربان کرگئے ۔
مینا بی بی کی عمر نوے سال ہے اور وہ بھارت سے ہجرت کرکے پاکستان آئی تھی اس دوران اسے کیا مشکلات پیش آئیں جب ہم نے اس بارے ان سے پوچھا تو ان کی آنکھوں میں آنسو بھرآئے کچھ دیر بعد وہ گویا ہوئیں توان کا کہنا تھا کہ وہ اور ان کا پوراخاندان جو سترہ افراد پر مشتمل تھا جالندھرانڈیا سے ہجرت کرکے پاکستان کیلئے روانہ ہوئے مگر وہاں سے لے کر لاہور تک ہمیں کئی جگہ ہندوؤں اور سکھوں کے حملوں کا سامنا کرنا پڑا ہمارامکمل قافلہ ڈیڑھ سو کے قریب افراد پر مشتمل تھا جس میں پچاس مرد تھے اور باقی عورتیں اور بچے تھے مردآگے آگے چلتے جاتے تھے ان کے پاس برچھیاں ،درانتیاں اور چھریاں تھیں ایک دو پرانی بندوقیں بھی تھیں جن سے انہوں نے جنونی ہندوں کا مقابلہ کیا تاہم پاکستان پہنچنے تک بیس افراد ہماری آنکھوں کے سامنے شہید ہوگئے جن میں میرا بھی ایک بھائی شامل تھا ۔
مینا بی بی کا کہنا تھا اس وقت اتنی قتل و غارت ہوئی کہ ہم سوچتے تھے کہ کاش پاکستان الگ ہی نہ ہوتا ہم جہاں رہ رہے تھے وہاں بہت امن تھا ۔انہوں نے کہا کہ حکمران کو چاہئے کہ سب سے پہلے امن و امان کو ٹھیک کرے ورنہ ظلم تو بھارت میں بھی ہورہاہے۔

منچریاں کی رہائشی ایک اور بزرگ شخصیت راؤمحمد عمرخان نے کہا کہ 14اگست کو جھنڈیاں اور جھنڈے ضرور لگائیں ،بڑے بڑے سیمینار اور پروگرام بھی ضرور کرو مگر جو راہ حق میں مارے گئے ان کو بھی یاد کرلو کہ ان کیساتھ کیا بیتی ۔قائداعظم اورعلامہ اقبال نے پاکستان بنایا مگر ان کے علاوہ بھی لاکھوں نے جانیں دیں اور وہ اس لئے نہیں دیں کہ ہندوؤں سے ملک کو آزاد کروا کر جاگیرداروں اور وڈیروں کے حوالے کردیا جائے ۔ہم نے ملک اس لئے حاصل کیا تھا کہ ہمارے ملک میں مسلمانوں کو آزادی حاصل ہوگی اور انہیں انصاف ملے گامگر آج دیکھ لو کہ کیا حالت ہے پاکستان کی لوگ نسل در نسل انصاف کیلئے بھٹکتے پھرتے ہیں ۔ہم نے انگریز سے نجات حاصل کرلی مگر نظام آج بھی اسی کا چل رہاہے ۔
انہوں نے کہا کہ یہ ٹھیک ہے کہ آزادی بڑی نعمت ہے مگریہ بھی حقیقت ہے کہ ہمیں آج تک وہ آزادی نظر نہیں آئی جس کیلئے ہم نے خون کی ندیاں پارکیں اور بیشمار قربانیاں دیں۔ان کا کہنا تھا کہ انگریزوں اور ہندوؤں نے تو چلیں ہم پر ظلم کیا ہے مگر ہمارے اپنے ہمارے ساتھ کیا کررہے ہیں یہ بھی تو دیکھیں۔اس پر انہوں نے ایک شعر کہہ کر اپنی بات ختم کی
ع۔ دشمنوں نے تو دشمنی کی ہے
دوستوں نے بھی کیا کمی کی ہے