تحریر:حامد نذیر ڈولہ
دیپالپور اوکاڑہ سے 25کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ دیپالپور ایک انتہائی قدیم شہر ہے جس کو سری چند نے آباد کیا تھا اور اس کا نام سری نگر رکھا تھا اس کے بعد اس کے بیٹے ہر سنگھ نے یہاں فصیل تعمیر کرائی اور بعد ازاں اس کا نام دیپالپور ہو گیا۔ دیپالپور کا موجودہ نام دیپا کے نام سے منسوب ہے ،جو راجہ سالواہن کا بیٹا تھا۔ اس نے شہر کو دوبارہ تعمیر کرایا تھا۔مشہور بنگالی مورخ ابناش چندرداس اپنی کتاب” رگ وید آف انڈیا” میں لکھتے ہیں کہ سیالکوٹ کے راجہ سلواہان کے بڑے بھائی دیپا چند نے اپنے بیٹے راجہ دیپا کے نام پر اس شہر کا نام دیپالپور رکھا۔تیرھویں اور چودھویں صدی عیسوی میں دیپالپور نے منگولوں کے خلاف دہلی سلطنت کے دفاع میں اہم کردار ادا کیا۔ اس وقت خیبر سے دہلی تک کے راستے صرف دیپالپور میں ہی ایک قلعہ موجود تھا۔1285ء میں منگولوں سے جنگ کے دوران فیروز شاہ تغلق کا بیٹا محمد شاہ اسی مارا گیا اور اسی دوران مشہور شاعر امیر خسرو کو دیپالپور میں قید کر دیا گیا۔1398ء میں بادشاہ تیمور نے برصغیر پر حملوں کے دوران اس خطے کو ملتان کے بعد خاص اہمیت دی۔1578ء میں اکبر بادشاہ حضرت بابا فرید الدین مسعود کے دربار پر حاضری دینے آئے تو انہوں نے اپنے بیٹے سلیم اور شاہی وفد کے ہمراہ دیپالپور میں قیام کیا۔برطانوی قبضے سے پہلے جو دیپالپور بادشاہوں اور سپہ سالاروں کی توجہ کا مرکز بنا رہا، اسے بعد میں مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا۔اس وقت دیپالپور کو ضلع اوکاڑہ کی ایک تحصیل کا درجہ حاصل ہے۔ماضی میں دیپالپور ایک قلعے میں آباد تھا جس کی فصیل 25 فٹ چوڑی اور گہری ہونے کی وجہ سے خاصی مضبوط تھی۔ اس قلعے کی پہلی دفعہ تعمیر کا کوئی خاص حوالہ تاریخ میں موجود نہیں ہے لیکن اس کی مرمت و تعمیرنو کا کام فیروز شاہ تغلق اور بعدازاں عبدالرحیم خاناں خاں نے کیا۔
قلعے کی دیوار مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے باقیات کی شکل اختیار کر چکی ہے۔فیروز شاہ تغلق نے چودھویں صدی عیسوی میں یہاں ایک بڑی مسجد بھی تعمیر کروائی جو کہ بادشاہی مسجد کے نام سے آج بھی موجود ہے اس کے علاوہ انہوں نے دریائے ستلج میں سے شہر کے اردگرد کے باغات کو پانی دینے کے لیے ایک نہر بھی نکالی۔سکھوں کے عہد میں دیپالپور کی حیثیت ایک تعلقہ کی تھی۔1810ء تک یہ نکئی خاندان کی جاگیر رہا۔ نکئی خاندان سے لینے کے بعد کنور کھڑک سنگھ اور 1928ء میں سردار جوند سنگھ موکل کی جاگیر میں شامل ہوا۔ 1840ء میں اس کی موت تک وہ اس کی جاگیر میں رہا، پھر اس کے بعد اس کا بیٹا بیلا سنگھ اس کا جانشین بنا۔ انگریزوں کے پنجاب پر قبضے تک وہ جاگیر پر قابض رہا۔۔ یہاں متعدد قدیم عمارتوں کے آثار پائے جاتے ہیں۔ ان میں لالو جسراج کا مندر، شاہ جہاں دور کے وزیر خان خاناں کی تعمیر کردہ مسجد، امام شاہ اور محمود شاہ نامی بزرگوں کے مزارات قابلِ ذکر ہیں۔1919ء کی ایک رپورٹ کے مطابق یہ قصبہ ضلع ساہیوال (منٹگمری) کی تحصیل تھا اب یہاں طلبہ و طالبات کے الگ الگ ڈگری کالج، تحصیل سطح کی عدالتیں، دفاتر، اہم قومی بنکوں کی شاخیں، تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال متعدد ہائی، مڈل اور پرائمری سکول موجود ہیں۔ کپاس، گندم، گنا یہاں کی اہم زرعی پیداوار ہیں جبکہ شہر میں تجارت کی متعدد مارکٹیں اور بازار ہیں۔ پرانا شہر تین دروازوں ٹھٹھیاری دروازہ، ملتانی دروازہ اور شمالی دروازہ کے اندر ہے جبکہ کئی جدید آبادیاں ان کے گرد آباد ہو چکی ہیں۔پرانے شہر میں ایک اور قابل ذکر جگہ راجہ دیپا چند کی جانب سے اپنے بیٹے لعل جس راج کی یاد میں تعمیر کی گئی خانقاہ تھی جو کہ آج خستہ حالت میں موجود ہے۔ جس راج کی خانقاہ کے ساتھ ہی تعمیر کی گئی ایک سرائے بھی موجود ہے جو ایک بڑے صحن کے اردگرد ہوادار کمروں پر مشتمل ایک بڑی مہمان گاہ تھی لیکن یہ بھی اب اپنی اصل شکل میں موجود نہیں ہے اور مقامی لوگوں کے قبضے کی وجہ سے ختم ہوتی جا رہی ہے۔
معروف سکالرڈاکٹر امجدوحید ڈولہ نے گذشتہ ماہ شروع ہونے والے سیوریج سسٹم کی کھدائی کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی حکومت نے اس نایاب ورثے کی حفاظت کے لیے کوئی اقدامات نہیں کئے ۔ جس کی وجہ سے دیپالپور کے درو دیوار اپنا وجود کھوتے جارہے ہیں ۔محکمہ آثار قدیمہ کی غفلت کا یہ عالم ہے کہ ان کی فہرست میں اتنا بڑا تاریخی مقام شامل ہی نہیں ہے ۔اس دور میں اس قلعے کی دیوار پر 24 برج تھے اور قلعے کے اندر 24 مساجد 24 تالاب اور 24 کنویں تھے۔ محمد تغلق کا مقبرہ آج بھی کسمپرسی کی حالت میں دیپالپور میں موجود ہے ۔ میاں شجاع حیدر سابقہ ناظم کا کہنا تھا کہ بلدیہ دیپالپور کی عدم دلچسپی اور ٹھیکداری نے یہاں کے مقامی لوگوں کا جینا دو بھر کر رکھا ہے مقامی ممبران اسمبلی اپنے مفادات کے لئے اپنے مطلوبہ ٹھیکداروں کو کروڑوں کے ٹھیکے دیتے ہیں۔ جن سے ان کو منہ مانگا کمیشن ملتا ہے ۔ ان کی ناقص پلاننگ اور ناقص میٹریل کی وجہ سے سیوریج سسٹم مکمل طور پر فلاپ ہو چکا ہے جس کہ وجہ سے متعدد لوگوں کے مکانات کو نقصان پہنچا ہے ۔یہ قلعہ ہماری دیپالپور کی تاریخ کا اثاثہ اور ہمارا ورثہ ہے ۔حکومت کو چاہئے کہ اس کی مرمت کروا کر اس کی گرتی حالت کو درست کیا جائے اور اس کو ورثہ قرار دے کر اسے سیاحتی مقام میں بدل دیا جائے ۔
