تحریر:قاسم علی…
جیسا کہ ہم آپ کو اپنے گزشتہ فیچر میں بتا چکے ہیں کہ میونسپل کمیٹی دیپالپور میاں فخرمسعود بودلہ کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی جارہی ہے ۔آج ہم آپ کو بتائیں گے کہ اس تحریک عدم اعتماد کا کیا انجام ہوا اور اس کے دیپالپور کی سیاسی صورتحال نے کس طرح نیا موڑلیا۔
اگست کے آغاز میں چیئرمین کی جانب سے ممبران میونسپل کمیٹی اور ہاؤس کو اعتماد میں لئے بغیر اضافی بل اور آمدہ بجٹ پاس کروانے کی کوشش کو مسترد کرتے ہوئے ممبران نے ان کے خلاف عدم اعتماد کا فیصلہ کیا اس سلسلے میں انہوں نے باقاعدہ اسسٹنٹ ڈائریکٹر لوکل گورنمنٹ اوکاڑہ کو درخواست پیش کی کہ وہ اپنے چیئرمین کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانا چاہتے ہیں ۔جس پر ڈپٹی ڈائریکٹر لوکل گونمنٹ اوکاڑہ کی جانب سے گونمنٹ آف دی پنجاب سیکرٹری لوکل گورنمنٹ وکمیونٹی ڈویلمنٹ ڈیپارٹمنٹ کے نوٹیفکیشن نمبری SOR(LG)38-28/2017کے تحت تمام جملہ ممبران و کونسلرزکو میونسپل کمیٹی دیپالپور میں گیارہ اگست دن 11:30اطلب کرلیا۔
دس اگست یعنی آخری روزتک عام تاثر یہی تھا کہ میاں فخرمسعود بودلہ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوجائے گی اور ان کی جگہ نیا چیئرمین میونسپل کمیٹی کا چارج سنبھال لے گا۔ایک سینئر سیاسی شخصیت نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ 11اگست کو میاں فخرمسعود بودلہ کمیٹی میں آئیں گے ہی نہیں کیوں کہ ان کو پتا ہوگا کہ آج وہ فارغ ہوجائیں گے اس لئے یہاں آکر ذلیل ہونے کی بجائے وہ گھر میں بیٹھ کر ہی اس خبر کو سننا زیادہ پسند کریں گے۔ لیکن عین آخری وقت میں بازی پلٹ گئی اور گیارہ اگست کو جو سوچا جارہاتھا اس کے بالکل برعکس ہوا۔
میاں فخرمسعود بودلہ تو اپنے ساتھیوں سمیت کمیٹی میں بڑی شان کیساتھ آئے تاہم ان کے خلاف تحریک پیش کرنے والا کوئی بندہ وہاں موجود نہیں تھا جس پر ڈپٹی ڈائریکٹر لوکل گورنمنٹ جو اس اجلاس کی صدارت کررہے تھے انہوں نے میاں فخرمسعود بودلہ کی کامیابی اور تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کا اعلان کرتے ہوئے میاں فخرمسعود کو بدستور کام جاری رکھنے کی ہدائت جاری کردی۔
یہ تحریک آخری وقت میں کیسے ناکام ہوئی یہ بتانے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ میونسپل کمیٹی کے کل ممبران کی تعداد 25ہے اور تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کیلئے دو تہائی ممبران کی حمائت ضروری تھی اور تحریک عدم اعتماد پیش کرنیوالے ممبران بہت پرامید تھے کہ ان کے پاس مطلوبہ اکثریت سے بھی زیادہ تعداد موجود ہے اور لگ بھی ایسا ہی رہاتھا کہ کیوں کہ سیدزاہد شاہ گیلانی کے بودلہ برداری کے ساتھ کافی عرصہ سے اختلافات چل رہے تھے اور انہی کی وجہ سے سیدزاہدشاہ گیلانی کا بیٹا سید نقی شاہ گیلانی چیئرمین میونسپل کمیٹی نہ بن سکا تھالیکن دس اگست کی شام جو کچھ ہوا وہ ہر ایک کیلئے ایک سرپرائز تھا کہ سیدزاہدشاہ گیلانی نے تمام تر اختلافات کو پس پشت ڈالتے ہوئے میاں فخر مسعود بودلہ حمائت کا اعلان کردیا ان کی اس حمائت سے سید نقی علی گیلانی اور ممتاز پھلرون نے اپنا وزن بودلہ برادری کی جھولی میں ڈال دیا اور رہی سہی کسر امتیاز احمدکوکب نے نکال دی ۔جنہوں نے بھی غیرمتوقع طور پرمیاں فخرمسعود بودلہ کی حمائت کرکے ان کی چیئرمین شپ کو بچانے میں کلیدی کردار اداکیا۔
یہ تحریک عدم اعتماد اصل میں صرف ایک چیئرمین کی تبدیلی تک محدود نہ تھی بلکہ اس تبدیلی کے دیپالپور کے سیاسی مستقبل پر گہرے اثرات مرتب ہونے جارہے تھے ۔وہ اس لئے کہ حالیہ انتخابات میں اگرچہ مسلم لیگ ن نے پورے ضلع کو کلین سویپ کیا تھا اور پی ٹی آئی یہاں سے کوئی نشست نہ جیت سکی تھی لیکن دوسری جانب تلخ حقیقت یہ بھی تھی کہ مرکز اورصوبے میں پی ٹی آئی کی حکومت بننے جارہی ہے ایسے میں مقامی مسلم لیگی قیادت کی کوشش تھی کہ کم از کم میونسپل کمیٹی میں اپنی مرضی کا سیٹ اپ لایا جائے ۔دوسری جانب پی ٹی آئی قیادت بھی اس خدشے کو بھانپ چکی تھی اس لئے سیدگلزارسبطین شاہ،چوہدری طارق ارشاداور سیدزاہدشاہ گیلانی نے میونسپل کمیٹی دیپالپور میں اپنے اثرورسوخ کو قائم رکھنے کیلئے اس تحریک کو ناکام کرنے کیلئے اپنا بھرپور کردارادا کیا۔
اس تحریک کی ناکامی کے بعد دیپالپور کی سیاست پر کیا اثر مرتب ہوا اس کا مظاہرہ 14 اگست کو میونسپل کمیٹی میں منعقدہ جشن آزادی تقریب میں بھی واضح نظر آیا جہاں پر گزشتہ کئی برسوں سے مہمانان خصوصی مقامی ایم این اے اور ایم پی اے ہوا کرتے تھے لیکن اب کی بار ان نشستوں پر سیدگلزار سبطین،چوہدری طارق ارشاد،میاں خرم جہانگیر وٹو اور سید نقی گیلانی رونق افروز تھے ۔یوں اس تحریک عدم اعتماد کی ناکامی نے دیپالپور کی سیاست کو بھی ایک نیارخ دے دیا ہے۔اب دیکھتے ہیں کہ سیاست کا یہ اونٹ آنیوالے دنوں کیا کروٹ بدلتا ہے۔
