تحریر:قاسم علی..
عطائی ڈاکٹر اسے کہتے ہیں جو خود کو ڈاکٹر، پروفیسریا سرجن کہتے اور لکھواتے ہیں اوراسی بنا پروہ لوگوں کا علاج کرتے ہیں مگر ان کے پاس اس کی کوئی سند اورڈگری نہیں ہوتی ہرسال عطائی ڈاکٹروں کی غلط تشخیص و علاج سے سینکڑوں افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
مگر اب چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے چودہ اکتوبر کو سپریم کورٹ رجسٹری لاہور میں صحت کی سہولیات سے متعلقہ ازخودنوٹس کیس کی سماعت کے دوران ہیلتھ کیئرکمیشن اورپنجاب پولیس کو حکم دیا کہ صوبہ بھر میں کام کرنے والے عطائی ڈاکٹروں کو گرفتار کرکے اس کی رپورٹ عدالت میں پیش کی جائے ۔اسی حکم کے بعدہیلتھ کیئرکمیشن اورپولیس پورے صوبے میں عطائیوں کے خلاف گھیرا تنگ کئے ہوئے ہیں۔یادرہے چیف جسٹس نے عطائیوں کے خلاف یہ از خودنوٹس کاہنہ لاہور کی ایک خاتون کی عطائی ڈاکٹر کے غلط انجیکشن کے باعث ہونے والی موت پرلیاتھا۔
ملک عرفان ڈرگ انسپکٹرضلع اوکاڑہ ہیں ان کے مطابق عطائی ڈاکٹروں کے خلاف عدالتی احکامات پر عمل درآمد کرتے ہوئے ایکشن لیاجارہاہے اور اب تک ضلع بھرمیں ایک سو سے زائد عطائیوں کو گرفتارکیاجاچکا ہے یا ان کے خلاف ایف آئی آرز درج کی جاچکی ہیں اور یہ آپریشن اس وقت تک جاری رہے گا جب تک ضلع بھرمیں ایک بھی عطائی ڈاکٹرموجود ہے۔
ان کاکہنا تھا کہ عدالتی احکامات کے بعد جب ہماری جانب سے ایکشن لیاگیا تو کئی عطائیوں نے خود کو بچانے کیلئے روپوشی اختیارکرلی تاہم ان کے کلینک اور دوکانیں سیل کردی گئی ہیں اور وہ کسی بھی طرح قانون کے شکنجے سے نہیں بچ پائیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ عطائیت پر پانچ لاکھ روپے جرمانہ اور تین سال تک قید کی سزا دی جاسکتی ہے۔
عوامی حلقوں میں عطائی ڈاکٹروں کے خلاف آپریشن کوتحسین کی نظر سے دیکھا جارہاہے کیوں کہ اس طرح عوام کو سندیافتہ ڈاکٹرز سے علاج کا موقع ملے گا ۔
سیدطاہربلال شاہ ایک سوشل ورکر ہیں انہوں نے کہا کہ
عطائیوں کے خلاف آپریشن کا آغاز بہت پہلے ہوجانا چاہئے تھا کیوں کہ یہ اس معاملے کا براہ راست تعلق انسانی زندگیوں کیساتھ ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں تاہم امید ہے سپریم کورٹ کے احکامات کے بعد حکومت اس ناسور کے خاتمے کیلئے پوری سنجیدگی دکھائے گی۔
لیکن ایک طرف تواس اقدام کو سراہا جارہاہے تو دوسری جانب ہسپتالوں میں فرائض انجام دینے والے پیرامیڈیکل سٹاف اور کوالیفائیڈ ڈسپینسرز کو اس آپریشن پر کچھ تحفظات بھی ہیں جن کا اظہار انہوں نے تحصیل ہیڈکوارٹر میں ہونے والے ایک ہنگامی اجلاس میں کیا۔
سرکاری ہسپتالوں میں جاب کرنیوالے تحصیل بھرکے کوالیفائیڈ ڈسپینسرز کا کہنا تھا کہ سرکاری ہسپتالوں میں برنالا لگانے سے لے کر انجیکشن لگانے ،بلڈپریشرچیک کرنے اور یورن پائپ کراس کرنے جیسے اہم ترین امور کوالیفائیڈ ڈسپینسرز ہی سرانجام دیتے ہیں مگر یہی کام انہیں پرائیویٹ طورپرکرنے کی اجازت نہیں ہے ۔
ان کا کہنا تھا کہ عطائیوں کے خلاف آپریشن کی ہم مکمل طور پر حمائت کرتے ہیں مگر اس کی آڑ میں کوالیفائیڈ ڈسپینسرز کو پریشان نہ کیاجائے بلکہ انہیں بھی بالکل اسی طرح پرائیویٹ پریکٹس کی اجازت دی جائے جس طرح ایم بی بی ایس ڈاکٹرز کررہے ہیں ۔
یہاں پر انہوں نے کہا کہ یہ کتنی مضحکہ خیزبات ہے کہ جن ہیلتھ ورکرز کو ہم ٹریننگ دیتے ہیں ان کو تو پرائیویٹ پریکٹس کی اجازت ہے اور مخصوص نسخہ جات بھی مریضوں کو تجویز کرسکتی ہیں مگر جو لوگ ان کے ٹرینرز ہیں اور جن کو اس فیلڈ میں پچیس پچیس سال بیت گئے ہیں ان کو یہ اختیار نہیں ہے ۔
مزیدبرآں انہوں نے کہا کہ بنیادی مراکز صحت میں ایم بی بی ایس ڈاکٹرز کی غیرموجودگی میں ہم حکومتی احکامات کے مطابق مریضوں کومکمل ٹریٹمنٹ دے رہے ہیں ،اسی طرح ریسکیو1122کی ہرایمبولینس میں ایک کوالیفائیڈ ڈسپینسرحکومت ہی کی طرف سے تعینات کیا گیا ہے جو زخمی کو فرسٹ ایڈ دے سکتا ہے اور اسے فوری ریلیف دینے کیلئے انجیکشن تک بھی لگاسکتا ہے اس وقت کوئی ڈاکٹراس زخمی یا مریض کے پاس نہیں ہوتا بلکہ یہ پیرامیڈیکس اور کوالیفائیڈ ڈسپینسرز ہی ہوتے ہیں جو ان کی جان بچانے کا وسیلہ بنتے ہیں مگر جب یہی کام وہ پرائیویٹ طور پر کرنا چاہے تو غیر
قانونی کیسے ہوجاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کو چاہئے کہ وہ ہماری پریکٹس کیلئے ایک مخصوص دائرہ کارکا تعین کرے جس میں رہتے ہوئے ہم پریکٹس کریں اگر ہم اس کی خلاف ورزی کریں تو بیشک ہمیں سزادی جائے۔
تمام کوالیفائیڈ ڈسپینسرز نے حکومت سے یہ پرزور مطالبہ بھی کیا کہ پیرامیڈیکس کیلئے الائیڈ ہیلتھ کونسل کا قیام عمل میں لایا جائے تاکہ ہیلتھ کیئرکونسل کی اجازت اور اس کی رجسٹریشن کے تحت متعین کردہ دائرہ کار کے تحت کوالیفائیڈ ڈسپینسرز بھی پرائیویٹ پریکٹس کرسکیں۔
