تحریر:قاسم علی
دنیا بھر میں تباہی مچانے والا کرونا وائرس جب پاکستان میں داخل ہوا تو ابتدائی دنوں میں بہت زیادہ احتیاطی تدابیر اختیار کی گئیں ۔ حکومت نے اس سلسلے میں کچھ اقدامات اٹھائے عوام نے سیریس نہ لیا تو حکومت نے لاک ڈاوَن لگا دیا اس دوران کیسز میں کچھ کمی ہوئی مگر لاک ڈاوَن کے باعث غریب طبقہ کی حالت مخدوش ہونے لگی جس پر حکومت کو لاک ڈاوَن اٹھانا پڑا ۔ اور پھر اس کیساتھ ہی عوام کا ہجوم ایک بار پھر سے ہرطرف نظر آنے لگا ۔ حکومتی ایس او پیز کو ہوا میں اڑا دیا جس کا نتیجہ وہی نکلا جس کا اندیشہ تھا کہ ضلع اوکاڑہ جو اب تک اس بلا سے کافی حد تک محفوظ رہا تھا وہ بھی اس کی زد میں آگیا۔
چندروز قبل اخبارات میں خبرشائع ہوئی کہ جن اضلاع کو کرونا کے حوالے سے خطرناک قرار دیا گیا ہے ان میں اوکاڑہ بھی شامل ہے لیکن اس کے باوجود عوام کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی اور نہ ہی انتظامیہ نے ایس او پیز کی خلاف ورزی پر خاموشی کو توڑا ۔ تین روز پہلے معلوم ہوا کہ ڈی پی او آفس کے دوملازمین کا کرونا ٹیسٹ پازیٹو آگیا ہے اور آج خبریں گردش میں ہیں کہ حویلی لکھا کے ڈپٹی ایم ایس ڈاکٹرسیف اللہ لیب انچارج محمداحمد بھی کرونا سے متاثر ہوچکے ہیں جن کو کورنٹائن کردیا گیا یہی نہیں بلکہ دیپالپور کے معروف نمبردار راوَمنظر کا بیٹا ڈاکٹر آصف کرونا وائرس کے ہاتھوں جان کی بازی ہارچکے ہیں ۔
اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے عوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ حکومتی ایس او پیز کا ہرصورت خیال رکھے جبکہ دوسری جانب مقامی انتظامیہ بھی سختی سے ان ایس او پیز پر عملدرآمد کروائے تاکہ اس موذی مرض سے بچا جاسکے ۔