تحریر:قاسم علی…
صدیوں پہلے سے آباد قدیم ترین شہر دیپالپور ایک تاریخی اہمیت و حیثیت کا حامل ہے لیکن گردش زمانہ اور حکومتی توجہ نہ ہونے کے باعث یہ شہر اپنے کئی تاریخی مقامات کھوچکا ہے ۔یہ ڈھکی بازار جسے پرانا دیپالپوربھی کہاجاتا ہے آج کل سیوریج نظام کی انتہائی ابتر صورتحال کے باعث اپنا حسن مزید کھوتا جارہا ہے۔
ڈھکی پر تقریباََ تیس ہزار نفوس آباد ہیں اور آخری بار اس کا سیوریج تقریباََ نصف صدی قبل ڈالا گیا تھا اس وقت اس شہر کی آبادی سات ہزار سے زیادہ نہیں تھی لیکن بعدازاں ڈھکی پر آبادکاری میں اضافہ ہوتا چلا گیا اوراب یہ پہلے کی نسبت چار گنا بڑھ چکی ہے مگر کسی حکومت اور مقامی انتظامیہ یا عوامی نمائندے نے سیوریج جیسے اہم ترین معاملے کو حل کرنے کی کوشش نہیں کی۔
سیوریج مسائل کے حل نہ ہونے کی وجہ سے ڈھکی بازار کے مکینوں کی زندگی اجیرن ہو چکی ہے کیوں کہ ہرسال بارشوں میں متعدد گھر گرجاتے ہیں اور چونکہ ڈھکی پر زیادہ تر آبادی غریب اور متوسط افراد پر مشتمل ہے اس لئے ان کیلئے یہ خرچہ نئے سرے سے کرنا ایک کوہ گراں سے کم نہیں ہوتا ۔
کئی بار تو ایسا بھی ہوچکا ہے کہ بارشوں میں مکان گرنے سے کئی افراد زخمی بھی ہوئے اور متعدد افراد جان سے بھی ہاتھ ھوچکے ہیں۔ لیکن مقامی حکومت وقتی طور پر تو وہاں پر ہنگامی دورے کرتی ہے ۔سروے بھی کروائے جاتے ہیں لیکن کچھ ہی روز بعد اس حادثے کی گردبیٹھ جانے کے بعد حکومت سب کچھ بھول جاتی ہے اور عوام کسی نئے حادثے کا انتظار کرنے لگ جاتے ہیں۔
حافظ محمد افتخارڈھکی دیپالپور کارہنے والا ایک معذورشخص ہے اور درزیوں کا کام کرتا ہے اس کا کہنا ہے کہ
ڈھکی بازار کا سیوریج مقامی قیادت اور انتظامیہ کی بدترین غفلت کا بڑا نمونہ ہے میرا مکان دوبار اس سیوریج کی وجہ سے متاثر ہوا ہے اور مجھے دیواریں بنانا پڑی ہیں جن کا بھاری خرچہ میں قرض پکڑ کر کیا جو اب تک نہیں اتارسکا۔اور یہ صرف میرا مکان نہیں بلکہ ڈھکی کے مکانات کی اکثریت ناقص سیوریج کی وجہ سے خطرے سے دوچار ہے۔
محمد عمران بھی پرانے دیپالپور کا باسی ہے اور اس کے مکان کی دیواریں جگہ جگہ سے پھٹی ہوئی ہیں اس کا کہنا ہے کہ
بیس سال قبل ہم ڈھکی بازار میں شفٹ ہوئے تھے اس وقت سارا نظام ٹھیک تھا لیکن اس کے بعد یہاں کی آبادی تیزی سے بڑھنے لگی اور سیوریج سسٹم ناکافی ہوگیا۔اگرچہ کچھ نالیاں وغیرہ بنائی گئیں مگر ٹھیکیداروں نے ٹھیک سے کام ہی نہیں کیا جس کی وجہ سے وہ نالیاں بھی عذاب بن گئی ہیں اور وہ پانی گھروں میں جانے لگا ہے جس کی وجہ سے بدبو اور تعفن پھیل جاتا ہے۔جس سے نہ صرف مقامی لوگوں کا جینا حرام ہوچکا ہے بلکہ اس صورتحال سے بیماریاں بھی جنم لیتی ہیں ۔
محمد شاہد نے بتایا کہ تین سال قبل ایک مکان گرگیا جس میں دو افراد جاں بحق ہوگئے تھے اس وقت کے اسسٹنٹ کمشنر امتیاز خان کھچی موقع پرپہنچے اور انہوں نے متاثرین کی امداد کی اور اس دوران انہوں نے مقامی لوگون کے توجہ دلانے پر یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ وہ ڈھکی بازار کے سیوریج مسائل کی درستی کیلئے اقدامات کریں گے لیکن اس کے بعد ان کا ٹرانسفر ہوگیا ۔اور ان کے جانے کے بعد یہ معاملہ ایسا کھٹائی میں پڑا کہ دوبارہ اٹھایا ہی نہیں گیا۔
عثمان نواز سعدی کا کہنا ہے کہ ڈھکی بازار کے مکینوں کا بھی اس خرابی میں بڑا ہاتھ ہے جو تھوڑی بہت پانی کی لیکج پر توجہ ہی نہیں دیتے اور انتظامیہ کو ٓگاہ ہی نہیں کرتے جب بات حد سے بڑ ھ جاتی ہے تودیواریں گرجاتی ہیں اور انتظامیہ کا تو اللہ ہی حافظ ہے ان کو سارا علم ہے کہ اس علاقے میں سیوریج ازحد ضروری ہے مگر انہوں نے کبھی اس بارے سوچا بھی نہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان حالات کی خرابی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ڈھکی پر راؤاجمل گروپ،سید فیملی،بودلہ فیملی اور قاضی فیملی میں سے ہی کوئی برسراقتدار رہاہے جن پر کوئی بھی تنقید نہیں کرتا چاہے وہ کچھ کریں یا نہ کریں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
ایک سٹوڈنٹ نے کہا کہ لوگوں کے مسائل کا حل نہ ہونا انتظامیہ اور مقامی قیادت کی غفلت تو ہے ہی لیکن ان لوگوں نے کبھی اس کیلئے درست طور پر کوشش بھی نہیں کی ان کو چاہئے کہ تحریری درخواستیں متعلقہ محکموں کو دیں اور ان معاملات کی مکمل پیروی کریں لیکن ہر ایک کو تنقید کرنا ہی آتی ہے کوئی بھی عملی کام کرنے کو تیار نہیں ہوتا۔
کچھ مقامی لوگوں نے یہ بھی کہا کہ بدقسمتی سے اس ایریا کے کونسلر وغیرہ اکثر اپوزیشن بنچوں پر ہی رہے ہیں اس لئے ان کی کم ہی سنی جاتی رہی ہے اور ان کے علاقے کے ترقیاتی کام بھی کوئی چیئرمین نہیں کرواتا ۔اور اب تو مزید مشکل ہوگیا ہے کیوں کہ اوکاڑہ میں حکمران جماعت کا کوئی ایم این اے یا ایم پی اے منتخب نہیں ہوا۔اس لئے یہی خدشہ ہے کہ پرانادیپالپورکہیں سیوریج کی نظر نہ ہوجائے۔
