mian manzoor ahmed khan wattoo 1,056

کیا میاں منظور احمد وٹو حلقہ این اے 103 سے الیکشن لڑیں گے ؟

تحریر:قاسم علی…
سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں منظور احمد خان وٹوآج کل ایک بار پھر شہ سرخیوں میں نظر آرہے ہیں جس کی وجہ ان کا حلقہ این اے 103سے الیکشن میں حصہ لینا ہے ۔یادرہے حلقہ این اے 103میں الیکشن نہیں ہوپایا تھا کیوں کہ یہاں کے امیدوار نے خودکشی کرلی تھی جس کی وجہ سے اس حلقہ میں انتخاب منسوخ ہوگیا تھااور اب اکتوبر میں یہاں ضمنی انتخاب ہونے جارہا ہے جس میں میاں منظور احمد وٹونے بھی کاغذات نامزدگی جمع کروائے جو منظور کرلئے گئے اور انہیں جیپ کا انتخابی نشان بھی الاٹ ہوگیا ہے۔
میاں منظور احمد وٹو الیکشن 2018ء سے قبل پاکستان پیپلزپارٹی کے نائب صدر تھے لیکن انہوں نے ان انتخابات میں یہ حکمت عملی یہ اپنائی کہ انہوں نے پاکستان پیپلزپارٹی کی جانب سے الیکشن لڑنے کی بجائے پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا اور اس کیلئے وہ این اے 143اور این اے 144سے بیک وقت بلے کے انتخابی نشان پر الیکشن لڑنا چاہتے تھے مگر پی ٹی آئی قیادت نے انہیں کسی حلقے سے بھی ٹکٹ نہ دیا بلکہ این اے 143میں سیدگلزارسبطین کو ٹکٹ دے دیا اور این اے 144میں میاں منظور وٹو کے مقابلے میں اپنا امیدوار نہ لائی اور میاں منظور وٹو آزاد حیثیت میں تالے کے انتخابی نشان پرکھڑے ہوئے البتہ پاکستان تحریک انصاف نے ان کے بیٹے میاں خرم جہانگیر وٹو اور روبینہ شاہین وٹو کو صوبائی سیٹوں کیلئے ٹکٹ جاری کردئیے تھے.
mian manzoor ahmed khan wattoo
تاہم یہ الیکشن وٹو فیملی کیلئے ایک بھیانک خواب ثابت ہوا اور نہ صرف میاں منظور وٹو یہ الیکشن ہارگئے بلکہ ان کا بیٹا میاں خڑم جہانگیر وٹو اور روبینہ شاہین بھی جیت نہ سکے اور پی پی 185اور پی پی 186سے شکست ان کا مقدر بنی۔اس بدترین شکست کے بعد کہا یہ جارہاتھا کہ میاں صاحب کی سیاست ختم ہوگئی ہے مگر لگتا ہے کہ ایسا نہیں ہے کیوں کہ وہ اب این اے 103کے ضمنی الیکشن کیلئے پرتول رہے ہیں۔
حلقہ این اے 103کی بات کریں کہ تو یہ حلقہ میاں منظور وٹو کیلئے نیا ہرگز نہیں ہے بلکہ میاں منظور وٹو دوعشرے قبل بھی یہاں سے جیت چکے ہیں اور نہ صرف 1993ء میں میاں منظور احمد وٹو یہاں سے الیکشن جیت چکے ہیں بلکہ یہ جیت ان کو وزارت اعلیٰ کی مسند پر پہنچانے کا باعث بھی بن گئی تھی۔
اور اب 2018ء الیکشن میں ناکامی کے بعد تاندلیانوالہ کیں سیٹ ایک بار پھر خالی ہے جس کا منظور احمد وٹو فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں لیکن یہاں سے الیکشن لڑنے کیلئے انہوں نے پی ٹی آئی سے ٹکٹ کی ڈیمانڈ کی مگر پی ٹی آئی نے ایک بار پھر انہیں نظر انداز کرکے سعداللہ بلوچ کو ٹکٹ جاری کردیا ہے جبکہ میاں منظور وٹو ایک بار پھرآزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑرہے ہیں اور ان کو جیپ کا نشان الاٹ ہوگیا ہے۔
ان کے مقابل میاں ماجد حسین وٹو بھی میدان میں ہیں ۔یادرہے ماجد حسین وٹو دیپالپور بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر رہے ہیں اور انہیں میاں معین احمد خان وٹو کی بھی بھرپور حمائت حاصل ہے ۔یہ وہی معین خان وٹو ہیں جنہوں نے حالیہ انتخابات میں منظور وٹو کو شکست دی ہے۔یہاں دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ جب میاں منظور وٹو نے این اے 144سے ہارنے کے بعد این اے 103سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا تو اس کے جواب میں میاں معین وٹو کا اعلان بھی اخبارات کی زینت بنا کہ اگر منظور وٹو تاندلیانوالہ سے الیکشن لڑیں گے تو وہاں بھی ان کا مدمقابل میں ہی ہوں گا تاہم اب انہوں نے منظور وٹو کے مقابلے میں اپنے ساتھی میاں ماجد حسین وٹو کی حمائت کردی ہے۔
manzoor wattoo na 103
اکتوبر میں ہونیوالے الیکشن کیلئے کیمپین کا آغاز ہوچکا ہے تاہم دوروز قبل پاکستان تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت نے لاہور میں میاں منظور احمد وٹو کی رہائشگاہ پر ان سے ملاقات کی ہے ۔اس ملاقات میں جہانگیر خان ترین اور علیم خان کے علاوہ مرکزی وزراء بھی شامل تھے ۔جبکہ میاں منظور وٹو کے صاحبزادے میاں خرم جہانگیر بھی اس موقع پر موجود تھے.
میاں منظور وٹو کے قریبی ذرائع کے طابق اس ملاقات کا مقصد میاں منظور وٹو کو این اے 103سے دستبردار کروانا ہے جبکہ اخبارات میں بھی یہ خبر آئی ہے کہ میاں منظور وٹو کو باقاعدہ پاکستان تحریک انصاف میں شامل کیا جارہاہے اور اس کے بدلے انہیں کہا جارہاہے کہ وہ این اے 103میں پی ٹی آئی امیدوار سعداللہ بلوچ کی حمائت کریں اور ان کی جیت میں اپنا کردار ادا کریں جس کے جواب میں میاں منظور احمد وٹو نے سوچنے کیلئے وقت مانگا ہے۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ میاں منظور وٹو بارے افواہیں گردش کررہی ہیں کہ انہوں نے سعداللہ بلوچ کی حمائت کا اعلان کردیا ہے تاہم ابھی تک ان کی جانب سے ایسا کوئی اعلان سامنے نہیں آیا ہے بلکہ ان کے بیٹے میاں خرم جہانگیر وٹو کا کہنا ہے کہ عوام ایسی کسی افواہ پر کان نہ دھریں ہم نے ابھی کوئی ایسا فیصلہ نہیں کیا اور میاں صاحب این اے 103سے الیکشن لڑیں گے۔لیکن یادرہے کہ حال ہی میں ہونے والے عام انتخابات میں بھی جب میاں منظور احمد خان وٹو کی جانب سے سید گلزار سبطین کی حمائت کی خبر گرم تھی تو اس وقت بھی میاں خرم جہانگیر نے کہا تھا کہ ہم نے ایسا کوئی فیصلہ نہیں کیا ہم این اے 143اور این اے 144 سے الیکشن لڑیں گے مگر ٹھیک ایک دن بعد میاں‌منظور احمد خان وٹو کو سید گلزار سبطین شاہ کی حمائت کا اعلان کرنا پڑا تھا.

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں