کیسا یوم مزدور اور کیسا آرام ؟
تحریر:قاسم علی
ہر سال یکم مئی کو دنیا بھر کے 80 سے زائد ملکوں میں مزدروں کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس میں سوائے مزدوروں کے سرکاری و غیر سرکاری دفاتر و اداروں میں عام تعطیل ہوتی ہے۔اس دن کو منانے کا آغاز اس وقت ہوا جب ایک سو تیس سال قبل شگاگو کے مزدوروں نے اپنے کام کے اوقات متعین کرنے کے لیے کام چھوڑہڑتال کی۔مزدوروں کا جلوس شگاگو کی سڑکوں پر اپنی آواز بلند کیے رواں دواں تھا لیکن تبھی ہجوم میں ایک بم پھٹا اور پولیس کی جانب سے فائرنگ شروع ہو گئی جس میں کئی مزدور اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھے۔اس سانحہ میں شگاگو کے مزدور تو ابدی نیند سو گئے لیکن ان کی قربانی رنگ لے آئی اور مزدورکے کام کرنے کا دورانیہ آٹھ گھنٹے مختص کر دیا گیا اور 1891ء سےیکم مئی کو دنیا بھر میں یوم مئی یا لیبرڈے کے طور پر منایا جانے لگا جس میں شکاگو کے مزدوروں کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے.
اس تاریخی واقعہ میں شگاگو کے مزدوروں نے تو اپنے حقوق حاصل کر لیے لیکن پاکستان میں تاحال مزدور اپنے حقوق اور اس دن کی تاریخ سے ناواقف ہیں اور یکم مئی کی عالمی چھٹی پر بھی روزی روٹی کی تلاش میں نکلے ہوتے ہیں۔
مئی کی سخت گرمی میں کھیتوں میں کام کرتے مزدور محمد لیاقت سے جب اوکاڑہ ڈائری کے نمائندے نے یہ پوچھا گیا کہ اس کے کام کا دورانیہ کیا ہے تو اس کا کہنا تھا کہ کام کے کوئی مخصوص اوقات نہیں ہیں جب مالک کام دے تبھی کرنا پڑتا ہے اس میں رات دن کی بھی گنجائش نہیں ہے۔ان کا کہنا تھا کہ دیہاڑی دار مزدور بھلے آٹھ گھنٹے کام کرتا ہو مگر کھیتوں میں کام کرنے والے مزدروکا کوئی شیڈول نہیں ہوتا۔
حجرہ شاہ مقیم کے رہائشی محمد ریاض نے اوکاڑہ ڈائری کو بتایا کہ ایک حادثے میں ان کا ایک ہاتھ ضائع ہو گیا تھا لیکن اس کے باوجود وہ کھیتوں میں پانی لگانے کا کام کرتے ہیں کیونکہ گھر فارغ بیٹھے رہنےسے ان کے گھر کا چولھا نہیں جلتا۔انہوں نے بتایا کہ بیشتر لوگ معذوری کے باوجود بھیک مانگنے پر مزدوری کرنے کو ترجیح دیتےہیں مگر انہیں اس وقت بڑی مایوسی ہوتی ہے جب انتہائی مشقت کے باوجود انہیں اتنی مزدوری بھی نہیں مل پاتی کہ وہ گھر کے راشن کے علاوہ خوشحالی کی کوئی اور راہ سوچ سکیں۔
مستری محمد علی گزشتہ پچاس سالوں سے مزدوری کے پیشے سے وابستہ ہے
جب ان سے لیبر ڈے کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ وہ تو کولہو کے بیل کی طرح مسلسل پچاس سالوں سے روزانہ صبح آٹھ سے شام پانچ بجے تک اپنی مزدوری کر رہے ہیں لیکن اس دوران نہ تو ان کے حالات بدلے ہیں اور نہ ہی حکمرانوں کی روش بدلی ہے۔ایک ہاتھ میں اینٹ اور ایک ہاتھ میں کانڈی (اوزار) پکڑے محمد علی نے بات ختم کرتے ہوئے بتایاکہ وہ گزرے کل میں بھی مزدور تھے اور آنے والےکل بھی مزدور ہی رہیں گے۔
سماجی شخصیت میاں محمد یٰسین سعیدی نےمزدوروں کے عالمی دن پر بات کرتے ہوئے کہا کہ
موجودہ مہنگائی کو دیکھتے ہوئے آج کے مزدور کیلئے حکومت کی جانب سےمقرر کردہ تنخواہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہےجس میں معقول اضافہ ناگزیر ہے.انہوں نے کہا کہ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اپنے خون، پسینے اور محنت سے دنیا بھر میں دیوقامت تعمیرات اور بڑے بڑے برج بنا کر ملکی معیشت کو سونا بنانے والا مزدور خود اپنی زندگی میں ہمیشہ خوشحالی کے خواب ہی دیکھتا رہ جاتا ہےبلکہ موجودہ مہنگائی کے دور میں شائد خواب دیکھنا بھی ممکن نہیں رہا.