یونیورسٹی آف اوکاڑہ کا افسوسناک واقعہ،ذمہ دار کون ؟

تحریر:قاسم علی

اسلام کے نام پر حاصل کئے جانیوالی اس مملکت خداد میں یہ دن بھی ہم نے دیکھنے تھے کہ یہاں کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اس طرح کی خرافات دیکھنے کو ملیں گی کہ جن سے ہمارا مذہب ہ میں ہر لمحے دور رہنے کی تلقین کرتا ہے ،یہ سوچا بھی نہیں تھا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے تعلیمی اداروں میں اس تہذیب کو پروموٹ کیا جائے گا کہ جس تہذیب نے خود مغرب کو اخلاقی انحطاط سے دوچار کردیا ہے ۔ درسگاہیں تو کسی بھی ملک کا سرمایہ افتخار ہوتی ہیں کیوں کہ یہ ہماری نوجوان نسل کو ادب و احترام،شعور ،اخلاقیات ،فلاح دارین اور وہ سب کچھ سکھاتی ہیں جس کی ایک انسان کو ضرورت ہوتی ہے مگر یونیورسٹی آف اوکاڑہ میں سپورٹس گالا کے نام پر جو کچھ ہورہا ہے اسے دیکھ کر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ہر باسی کا سرشرم سے جھک جائے گا ۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونیوالی وڈیوز میں صاف دیکھا جاسکتا ہے کہ کس طرح لڑکے اور لڑکیاں مخلوط ڈانس کر رہے ہیں ۔ اوکاڑہ کے معروف ترین تعلیمی ادارے میں اس طرح کی بیہودہ حرکات اور مخلوط ڈانس ایک اسلامی ملک میں کسی بھی طرح قابل قبول نہیں ۔ یونیورسٹی میں منعقدہ اس ناچ گانے کی وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد عوام میں شدید تشویش پائی جارہی ہے لوگوں کا کہنا ہے کہ ہم اپنے بچوں کو تعلیمی اداروں میں شعور اور اخلاقیات پڑھنے کیلئے بھیجتے ہیں مگر وہاں پر تو انہیں بے حیائی کی جانب راغب کیا جارہا ہے ۔ عوام نے سپورٹس گالا کے نام پر فحاشی پھیلانے والے ادارے کے منتظمین کے خلاف فوری اور سخت ایکشن کا مطالبہ کیا ہے ۔ دوسری جانب یہ بھی کچھ لوگوں کا موقف ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ کا اس میں کوئی قصور نہیں یہ وہاں کے طلباء کا ذاتی فعل ہے اس میں یونیورسٹی کو گھسیٹنا مناسب نہیں لیکن میں یہ کہتا ہوں کہ ممکن ہے یونیورسٹی انتظامیہ اس فعل میں براہ راست ملوث نہ ہو لیکن اگراس کو سچ مان بھی لیا جائے تو بھی یونیورسٹی انتظامیہ کو کسی بھی صورت بری الزمہ قرار نہیں دیا جاسکتاکیوں کہ اداروں میں ڈسپلن قائم رکھنا وہاں کی انتظامیہ کی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس ایشو پر یونیورسٹی انتظامیہ کیا ایکشن لیتی ہے اور حکام بالا ایسے واقعات کی مستقل روک تھام کیلئے کیا اقدامات اٹھاتے ہیں ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button