تحریر:قاسم علی…
ہرروز کی طرح یہ بھی ایک معمول کی صبح تھی بستی عبداللہ کا رہائشی ناظم علی اپنے بچوں کیساتھ ناشتے سے فارغ ہوکر کام پر جانے کی تیاری کررہاتھا کہ اچانک اسی دوران اس کے تین بچوں کو الٹیاں اور موشن شروع ہوگئے ناظم ان کو مقامی ہسپتال ٹی ایچ کیو دیپالپور میں لے گیا جہاں پر موجود ڈاکٹرز نے انہیں چیک کیا ٹرٹمنٹ کی اور گھر بھیج دیا کہ اب بچے ٹھیک ہیں ناظم گھر آگیا مگر ایک گھنٹۓ بعد بچوں کو وہی تکلیف پھر شروع ہوگئی ناظم مرتا کیا کرتا پھر ہسپتال لے گیا مگر اس وقت تک کافی دیر ہوچکی تھی ہسپتال والوں نے انہیں اوکاڑہ لے جانے کا مشورہ دے دیا ناظم بیچارے کے پاس تو اتنے پیسے بھی نہیں تھے کہ ان کو اوکاڑہ لے جاتا چنانچہ محلہ والوں نے اس کی مدد کی اور ریسکیو والوں کو فون کیا جو انہیں بیس منٹ میں اوکاڑہ تو لے گئے مگر اس بھاگ دوڑ کے دوران ہی تین سالہ بچہ زین دم توڑ گیا جب کہ کچھ ہی دیر بعد چار سالہ ضمیرہ بھی اللہ کو پیاری ہوگئی۔
بچوں کے والد ناظم نے سجاگ کو بتایا کہ وہ نہیں جانتا کہ اس کے بچوں کو کیا ہوا تاہم اگر ان کی بروقت صحیح تشخیص کرکے ان کا اعلاج کیاجاتا تو شائد میرے بچے یوں نہ مرتےمگر ہسپتال میں مرض کو درست طور پر سمجھ نہ سکنے اور بعد ازاں اوکاڑہ ریفر کرنے کی وجہ سے میرے لختِ جگر جان سے ہاتھ دھوبیٹھے۔
بچوں کے دادا قاسم نے کہا کہ ٹی ایچ کیو تحصیل کا واحد سرکاری ہسپتال ہے مگر اس میں جن ڈاکٹروں کی سیٹیں خالی ہیں اگر وہ پُر کردی جائیں تو یہ ریفر والا سلسلہ ختم ہوسکتا ہے ورنہ ایسے سانحات ہوتے ہی رہیں گے۔
میڈیکل آفیسر ٹی ایچ کیو ہسپتال دیپالپور ڈاکٹر عادل رشید نے بتاییا کہ ہسپتال میں ڈاکٹرز کی تمام سیٹیں مکمل نہ ہونے کی وجہ سے نہ صرف ہم پر کام کا وزن زیادہ ہوا ہے بلکہ اس سے عوام کی مشکلات میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ فرض کریں اگر دو لوگوں کے مابین لڑائی ہوجاتی ہے یا کوئی دیوار وغیرہ سے گرجاتا ہے تو اس کیلئے سب سے پہلے ایکسرے یا الٹراساونڈ کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ مسئلے کا تعین کیا جاسکے مگر ٹی ایچ کیو میں نہ تو ریڈیالوجسٹ موجود ہے نہ آرتھو پیڈک سرجن دستیاب ہے اور نہ ہی میڈیکل سپیشسٹ ہے جس کی وجہ سے ہمیں مجبوراَزخمی کو اوکاڑہ ریفرکرنا پڑتا ہے۔
ہسپتال کے اکاونٹنٹ الطاف حسین نے بتایا کہ ہسپتال میں عرصہ دوسال سے میڈیکل سپیشلسٹ موجود نہیں ان سے قبل ڈاکٹر شاہد ڈوگر یہاں پر ایک سال تک ڈیوٹی کرتے رہے تاہم پھر اوکاڑہ چلے گئے ان کے بعد یہاں کسی بھی میڈیکل سپیشلسٹ کی تعیناتی نہیں ہوسکی ہے۔
انہوں نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ ٹی ایچ کیو میں ایک سپیشلسٹ ڈاکٹر،ایک ای این ٹی سپیشلسٹ،نیفرالوجسٹ کی ایک،اآرتھو پیڈک کی بھی ایک اور ریڈیالوجسٹ کی ایک سیٹ اپنے ڈاکٹرز کا انتظار کررہی ہے مگر سات سال سے زیادہ عرصہ گزرجانے کے باوجود ان سیٹوں کو پُر نہیں کیا جاسکا ہے۔
ایم ایس ڈاکٹر صغیر کا کہنا تھا کہ ہر ماہ ای ڈی او اور ڈی سی او کو ویکینسی رپورٹ ارسال کی جاتی ہے جس میں بتایا جاتا ہے کہ یہ ڈاکٹرز دستیاب نہیں ہیں ۔
ڈاکٹر صغیر کا کہنا ہے کہ اصل مسئلہ ڈاکٹرز کی تعیناتی نہیں بلکہ ڈاکٹرز کا نہ ملنا ہے اگر ہمیں آج بھی میڈیکل سپیشلسٹ،آرتھو پیڈک یا ریڈیالوجسٹ وغیرہ مل جائیں تو ہم ان کو بھرتی کرنے میں ایک لمحہ بھی نہیں لگائیں گے۔
انہوں نے بتایا کہ سب سے زیادہ ضروری ریڈیالوجسٹ اور میڈیکل سپیشلسٹ کا موجود ہونا ہے اگر یہ دونوں ڈاکٹرز ہمیں مل جائیں تو ہمیں ہر مریض کو اوکاڑہ ریفر نہ کرنا پڑے اور ان کا علاج یہاں ہی ممکن ہوسکے گا۔
سماجی شخصیت محمد ظفر کا کہنا ہے دیپالپور پندرہ لاکھ کی آبادی رکھنے والا شہر ہے جہاں پرہسپتال میں ہر سہولت ملنی چاہئے تاکہ ان کا علاج مقامی سطح پر ہی کیا جاسکے۔